جاز کے سی ای او عامر ابراہیم نے کہا ہے کہ کمپنی عوامی سطح پر جانے کے لئے تیار ہے، اس حوالے سے صورتحال اگلے 12 ماہ میں واضح ہوجائے گی ، واضح رہے کہ یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹیلی کام بزنس سے وابستہ بڑی کمپنی ایک ایسی سروس کمپنی کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں آمدنی کے متعدد ذرائع ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
عامر ابراہیم نے کراچی میں ایک تقریب کے دوران بزنس ریکارڈر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی عوامی پیشکش (آئی پی او) کی تیاری میں عام طور پر 6 سے 12 ماہ لگتے ہیں، لیکن آپ درست وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ پی ایس ایکس کے سربراہ فرخ ایچ خان کے سی ایف او کے طور پر جاز میں آنے کو اس سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور قیاس کررہے ہیں کہ ٹیلی کام کمپنی خود کو آئی پی او کے لئے تیار کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بات بھی حتمی نہیں ہوتی، تاہم آئی پی او کی طرف جانے کا پورا ارادہ ہے، ہمارے بہت سے کاروبار ہیں لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم آئی پی او میں کون سا اثاثہ لے کر جاتے ہیں۔
پاکستان میں آئی پی اوز کا انتخاب ایک غیر معمولی بات ہے اور گزشتہ پانچ سال میں مین اور جی ای ایم بورڈز میں شامل 20 سے بھی کم کمپنیوں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں لسٹ ہونے کا انتخاب کیا ہے، جو تقریبا 350 ارب ڈالر کی معیشت کے لیے مایوس کن اعدادوشمار ہے۔
نئی لسٹنگ کے باوجود پی ایس ایکس میں کمپنیوں کی مجموعی تعداد اسی عرصے میں 531 سے گھٹ کر 524 رہ گئی ہے۔ پی ایس ایکس میں ایک اور مسئلہ لیکوڈیٹی کی کمی ہے جہاں 3 لاکھ سے بھی کم اکاؤنٹس تجارتی عمل میں مشغول ہیں۔
عامر ابراہیم کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جاز نے نجی شعبے کی سب سے بڑی سنڈیکیٹڈ کریڈٹ سہولت 75 ارب روپے تک حاصل کرلی ہے، جو 10 سالہ معاہدہ ہے جو ٹیلی کام آپریٹر کیلئے آئندہ کی صورتحال واضح کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ایکس سے اتنی رقم اکٹھا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس وقت کیپٹل مارکیٹ میں تیزی ہے لیکن یہ ابھی بھی کم ہے۔
پاکستان کے نجی شعبے کا سب سے بڑا آئی پی او ایئر لنک کی جانب سے 2021 میں منعقد کیا گیا تھا اور حالیہ تیزی کے باوجود پی ایس ایکس کا مارکیٹ کیپٹلائزیشن اب بھی صرف 37 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا تقریبا 10 فیصد) ہے۔
جاز کی فنانسنگ ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب ٹیلی کام آپریٹر مالیاتی خدمات، سافٹ ویئر بنانے، ڈیٹا سینٹرز اور کلاؤڈ سلوشنز اور تفریح سمیت متعدد شعبوں میں ترقی کے مواقع تلاش کر رہا ہے۔
ویڈیو انٹرٹینمنٹ پلیٹ فارم تماشا ایپ کے ماہانہ فعال صارفین کی تعداد 18 ملین ہے، جو کرکٹ ناظرین کو زیادہ دیر تک مصروف رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ عوامی اعداد و شمار کے مطابق مالی خدمات کی شاخ جاز کیش نے 2023 میں 5.8 ٹریلین روپے کی ٹرانزیکشنز کیں، اس کے صارفین کی تعداد 44 ملین سے زیادہ ہے جس کے ماہانہ 16.2 فعال صارفین ہیں اور مجموعی طور پر مارکیٹ شیئر 64 فیصد ہے۔
عامر ابراہیم کے مطابق پاکستان میں فنانس، تعلیم، صحت، تفریح کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ہم اسمارٹ کنکٹڈ سسٹم بننا چاہتے ہیں۔
عامر ابراہیم نے کہا کہ ٹیلی کام کاروبار کی نوعیت ایسی ہے کہ تمام آپریٹرز عام طور پر اپنی آمدنی کا 15 سے 20 فیصد اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے پر خرچ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں، نئے شہروں میں جاتے ہیں، اپنے سامان کو اپ گریڈ کرتے ہیں اور بلنگ سسٹم کی خصوصیات شامل کرتے ہیں. یہ وہ جگہ ہے جہاں اثاثے بنائے جاتے ہیں۔
لیکن جاز کے لیے جو چھ بین الاقوامی مارکیٹوں میں اپنے پیرنٹ ویون کی آمدنی (30.3 فیصد) کا سب سے بڑا حصہ دار ہے، 75 ارب روپے کی رقم صرف اس کے ٹیلی کام کاروبار کے لیے نہیں ہے۔
جاز اپنے کلاؤڈ پلیٹ فارم گرج پر اپنی فنانسنگ، انٹرٹینمنٹ بزنس پر اتنا ہی پیسہ لگا رہا ہے۔
وین نے چند روز قبل شائع ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2023 میں اسے پاکستان کا سب سے بڑا آن شور کلاؤڈ قرار دیتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’جاز اپنے ڈیٹا سینٹر کی پیشکشوں اور صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے‘۔
ابراہیم نے کہا کہ آگے بہت کچھ دلچسپ آنے والا ہے۔
70 ملین سے زیادہ لوگ ہمارے ٹیلی کام کاروبار پر انحصار کرتے ہیں اور ہم اپنی تین کاروباری لائنوں کے ساتھ مزید سرمایہ لگا رہے ہیں۔ کلاؤڈ سروس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔
ہم ڈیٹا سینٹرز اور کلاؤڈ کے سب سے بڑے صارفین میں سے ایک ہیں اور اب ہم اسے بیرونی دنیا کو پیش کرنے کی پوزیشن میں ہیں.
ٹیلی کمیونی کیشن ہمارا بنیادی کاروبار ہے لیکن یہ تینوں اثاثے ہمارے مستقبل کی تشکیل کریں گے۔
اگرچہ عامر ابراہیم نے ترقی کے لئے ایک مارکیٹ کے طور پر پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن تشویش کی وجوہات بھی ہیں۔
وفاقی بجٹ، جسے اسلام آباد کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام کے آغاز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، کو معاشرے کے تمام طبقوں اور کاروباری اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگوں نے اسے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے حکم کیا گیا قرار دیا ہے کیونکہ پاکستان ایک اور بیل آؤٹ پروگرام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ پر ہمارا رد عمل منفی تھا۔ بجٹ میں ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کو وہ اہمیت نہ دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی،۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے کچھ اقدامات ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک لازمی یا ہنگامی سروس کے طور پر اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان پر ٹیکس لگانا یا اسے کلیکشن ایجنٹ کے طور پر استعمال کرنا، اور نان فائلرز کو فائلرز میں تبدیل کرنے میں مدد کرنا صرف بدقسمتی ہے۔
عامر ابراہیم نے کہا کہ جاز میں 5 ہزار افراد کام کرتے ہیں اور تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانے سے بھی ان سب پر منفی اثر پڑا ہے۔
ہم (مل کر) کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024