معاشی نتائج پر ثقافت کے اثرات

01 اگست 2024

حالیہ کم زیر بحث واقعات میں سے ایک جو پاکستان کے مستقبل کی معاشی رفتار کو متاثر کر سکتا ہے متحدہ عرب امارات کی حکومت کی طرف سے 40 سال سے زیادہ عمر کے پاکستانیوں کو ملک میں کام کرنے سے روکنے کا (غیر اعلانیہ) فیصلہ ہے۔

اس فیصلے کی وجہ ہمارے سیاسی کلچر سے جڑا ایک مسئلہ تھا یعنی اپوزیشن کو برداشت نہ کر پانا! اس بار جو کچھ مختلف تھا وہ یہ تھا کہ ان اختلافات نے یو اے ای میں ریلیوں کی شکل اختیار کر لی جس سے روزمرہ کی زندگی اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔

اس کے یقیناً ایسے اثرات ہیں جن کی ہم شاید ہی تعریف کرتے ہیں۔ سب سے واضح چیز ترسیلات زر سے متعلق ہے۔ عرب ممالک ترسیلات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جو پاکستان جیسے ڈالر کی کمی کا شکار ملک کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات مستقبل میں پاکستانیوں کو ملازمت دینے کی واضح طور پر حوصلہ شکنی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ترسیلات زر کے علاوہ پہلے سے وہاں موجود پاکستانیوں کی ملازمتیں بھی خطرے میں پڑجائیں گی۔ اگرایسی تحریک دوسرے ممالک اور اس سے باہر پھیل جائے تو کیا ہوگا؟

یہ فرضی منظر نامہ بعید از قیاس نہیں، چند سال قبل ہم نے خانہ کعبہ میں پی ٹی آئی کے پیروکاروں کی جانب سے پی ڈی ایم حکومت کے رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی کے ناخوشگوار مناظر دیکھے تھے، یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو سعودی حکام کو پسند نہیں آیا تھا۔

ثقافت، جو انسان کے بنائے ہوئے طرز عمل سے تشکیل پاتی ہے، تاریخی طور پر معاشی نتائج کو متاثر کرنے والے عوامل پر بحث میں کم اہمیت کی حامل رہی ہے۔

پاکستان میں، جہاں پوری معاشی بحث ٹیکسوں، جی ڈی پی، مانیٹری پالیسی، اخراجات وغیرہ جیسے چند منتخب میکرو اکنامک اشاریوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، ثقافت کبھی بھی معاشی بحث کا حصہ نہیں رہی ہے۔ لیکن در حقیقت اس کے مضمرات بہت وسیع ہیں۔

یہ خاص مسئلہ، ثقافت اور معاشی نتائج حال ہی میں پائیڈ کی جانب سے منعقد ہونے والے ایکون فیسٹ کا حصہ تھا، ایک ایسا ادارہ جس کی تحقیق کی گہرائی ہماری معیشت کے اب تک غیر واضح پہلوؤں کو چھوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی گفتگو کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔

یہ احساس کہ ثقافت معاشی نتائج کو متاثر کر سکتی ہے، ایک پرانا ہے۔ مثال کے طور پر فرانسیسی ماہر فلکیات جان کیلون (1509-1564) کا فلسفہ یہ تھا کہ اس دنیا میں انسان کی مشکلات بعد کی زندگی میں اس کے مقام کا تعین کرسکتی ہیں، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت کی آبادی کی کام کی کوششوں پر مثبت اثر پڑا تھا، جسے مشہور میکس ویبر (1864-1920) نے مین لینڈ یورپ میں مجموعی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لئے ایک اہم محرک کے طور پر حوالہ دیا تھا۔

ویبر نے خود مشہور ’پروٹسٹنٹ اخلاقیات اور سرمایہ داری کی روح‘ لکھی جس میں کہا گیا تھا کہ مارٹن لوتھر کی طرف سے کی گئی پروٹسٹنٹ اصلاح نے ثقافت (مذہبی عقائد جیسی دیگر چیزوں کے علاوہ) پر شدید اثر ڈالا اور جدید سرمایہ داری کو جنم دیا جس نے صنعتی انقلاب جیسی نمایاں تبدیلی لانے میں مدد کی۔

پاکستان کی بات کی جائے تو اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ثقافت کا ہمارے معاشی نتائج پر کافی اثر ہے۔ مائیکرو سے لے کر میکرو سطح تک بے شمار مثالیں ہیں۔

مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں پاکستان ایمازون سے تقریبا باہر ہو چکا ہے۔ ( پے پالجیسی دیگر بڑی آرگنائزیشن کی پاکستان میں کوئی موجودگی نہیں ہے)۔ اس کی وجہ پاکستان میں کچھ کاروباری افراد تھے جنہیں ایمازون نے اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی تو انہوں نے جعلی مصنوعات فروخت کرنا شروع کردی تھیں، ایمازون کی جانب سے اس بارے میں انکشاف کے بعد تقریبا ڈیڑھ لاکھ اکاؤنٹس بند کر دیے گئے تھے۔

اس کے معاشی اثرات شدید ہیں لیکن پاکستان میں اس کا شاید ہی کوئی اعتراف کیا جائے۔ ایمازون کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 1.88 ٹریلین ڈالر ہے جس میں تقریبا 145 بلین ڈالر کی نقد رقم موجود ہے۔ اس کا موازنہ پاکستان کے مجموعی ذخائر 12 ارب ڈالر اور معاشی حجم بمشکل 350 ارب ڈالر سے کریں۔

دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو چند پاکستانی تاجروں کے رویے نے ایک ایسے ادارے کے دروازے بند کر دیے ہیں جس کی مالیت کھربوں ڈالر ہے اور جس کی مارکیٹ تک رسائی حیران کن ہے۔ اگر پاکستانی حکام دھوکہ دہی کی سرگرمی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے تو کچھ نقصانات کی تلافی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جیسا کہ ہمارا ’مٹی پاؤ‘ کلچر ہے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے پورا پاکستان متاثر ہوا۔

مزید کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا پیچیدہ مسئلہ غیر شفافیت کے ساتھ ساتھ بے ایمانی کے کلچر کی عکاسی کرتا ہے جس کی ایک اہم قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ صارفین کو طے شدہ ’کیپسٹی‘ چارجز کی مد میں کھربوں روپے یہ جانے بغیر کہ معاہدوں میں کیا کہا گیا ہےادا کرنے پڑتے ہیں۔

ان معاملات کے علاوہ جہاں مالی نقصانات واضح اور قابل فہم ہیں، ایسے غیر مالیاتی پہلو بھی ہیں جو آخر میں نمایاں مالیاتی اثرات رکھتے ہیں۔

مذہبی غیرت مندی کا بڑھتا ہوا منظر اس کی ایک مناسب مثال ہے، جس میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کے بڑھتے ہوئے واقعات اور مذہب سے متاثر تشدد غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کی عکاسی اس معمولی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہوتی ہے جسے پاکستان اپنی طرف راغب کرتا ہے (خالص براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری مالی سال 22-23 میں محض 1.1 بلین ڈالر تھی)۔

مذہبی انتہا پسندی اور اس طرح کے دیگر رویوں کے پہلو جو (براہ راست اور بالواسطہ) طور پر معاشی نتائج کو متاثر کرتے ہیں، حال ہی میں جاری کیے گئے پائیڈ بیسکس سروے میں اچھی طرح سے دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ لائبریریوں کی عدم دستیابی اور پڑھنے کی معمولی عادات اچھے معیار کے انسانی سرمائے کی تشکیل کو متاثر کرتی ہیں، جو کہ جدید معاشی ترقی کا سب سے اہم جزو ہے۔

خلاصہ یہ کہ پاکستان میں مروجہ ثقافت کے مختلف پہلو ہماری معاشی حالت پر نقصان دہ اثر ڈالتے ہیں۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ ثقافت ایک انسان کا بنایا ہوا رجحان ہے، اس لیے مستقبل میں بہتر نتائج کے لیے اس کو بدلنا ہمارے بس میں ہے۔

Read Comments