صارفین کے تحفظ میں ناکامی پر نیپرا کو تنقید کا سامنا

31 جولائ 2024

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) صارفین کے مفادات کے تحفظ میں ناکامی اور ٹیرف کے تعین میں حکومت اور پاور یوٹیلیٹیز کا ساتھ دینے پر تنقید کی زد میں آگئی۔

اتھارٹی کو اس ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کے الیکٹرک کی جانب سے مئی اور جون 2024 کے ایف سی اے میں ایڈجسٹمنٹ کی درخواست پر ہونے والی عوامی سماعت کے دوران ہوا۔ کے الیکٹرک نے ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کے تحت بیس ٹیرف کی مد میں 10.036 ارب روپے کی وصولی کے لیے 5.92 روپے فی یونٹ (مئی کے لیے 2.53 روپے فی یونٹ اور جون 2024 کے لیے 2.92 روپے فی یونٹ) کا اضافہ طلب کیا ہے۔ تاہم نیپرا کی ٹیم نے 100 بی پی ایس کی کم شرح سود کی روشنی میں اعداد و شمار کا ازسرنو تخمینہ لگانے کے بعد دونوں ماہ کے لیے ایف سی اے کو کم کردیا ہے۔

سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے نمائندے سمیت کچھ مبصرین نے مطالبہ کیا کہ صارفین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی اور حکومت اور پاور سیکٹر کے اداروں کے ساتھ ملی بھگت پر پوری اتھارٹی مستعفی ہو جائے کیونکہ نیپرا ربڑ سٹیمپ بن چکا ہے۔

ایک اور تبصرہ نگار، عارف بلوانی نے بھی پاور ڈویژن کے سیکشن آفیسر کی طرف سے مجاز اتھارٹی کی منظوری سے بھیجی گئی حکومتی ہدایات پر عمل کرنے پر اتھارٹی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

تاہم چیئرمین نیپرا نے ٹیرف کے تعین کا دفاع کیا، جو ان کے مطابق، کسی ایک شخص یا چیئرمین نے نہیں بلکہ پوری اتھارٹی کے ذریعے حتمی اور منظور شدہ ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد سیکشن آفیسر کا خط لکھا جاتا ہے۔

انہوں نے ذاتی تبصروں سے گریز کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر اتھارٹی کے فیصلے میں کوئی کوتاہی ہے یا کوئی غلط اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا ہے تو اتھارٹی اسے درست کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر ٹیرف کا تعین کیا جاتا ہے جس کی تصدیق نیپرا کے ماہرین کرتے ہیں۔

چیئرمین نیپرا نے بنیادی ٹیرف میں 5.72 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری پر اتھارٹی کے خلاف موجودہ تنقید کا بھی حوالہ دیا اور واضح کیا کہ ڈسکوز کی درخواست پر 8.28 روپے فی یونٹ اضافہ طلب کیا گیا تھا لیکن نیپرا کے ماہرین نے اسے کم کر کے 5.72 روپے فی یونٹ کر دیا اور 260 ارب روپے کی بچت کی۔۔ بعد ازاں پاور ڈویژن نے اس غلطی کا اعتراف کیا۔

جماعت اسلامی کے نمائندے عمران شاہد نے کہا کہ ایک طرف پورا ملک آئی پی پیز کو زیادہ ٹیرف اور کیپیسٹی کی ادائیگی پر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ساتھ ہی کے الیکٹرک صارفین سے آئی پی پیز کے مقابلے میں زیادہ قمیت وصول کر رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک کا جنریشن لائسنس ختم کیا جائے اور نیشنل گرڈ سے پاور یوٹیلیٹی کو پوری سپلائی دی جائے۔

انہوں نے کے الیکٹرک کو آئی پی پیز کی طرح ڈالر میں آر او ای کی منظوری اور کے الیکٹرک کے صارفین کو 54 ارب روپے کی اضافی رقم واپس نہ کرنے پر بھی نیپرا سے وضاحت طلب کی۔

جب ایک صحافی نے مطالبہ کیا کہ اتھارٹی کے ممبران اپنے اپنے صوبوں کے صارفین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی پر مستعفی ہو جائیں تو ایک ممبر رفیق شیخ نے جواب دیا کہ پہلے میڈیا کے نمائندوں کو غیر مستند خبروں پر استعفیٰ دینا چاہیے۔ انہوں نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ وہ تبصرے پیش کرنے سے پہلے اتھارٹی کے فیصلوں کو دیکھیں۔

کورنگی ایسوسی ایشن کے نمائندے ریحان جاوید نے بتایا کہ ایف سی اے کی کل رقم 8.67 روپے فی یونٹ ہوگی یعنی اگست 2024 میں 3.10 روپے + 2.53+2.92 روپے وصول کیے جائیں گے اور 2.16 روپے فی یونٹ ٹیکس کے اضافے کے بعد اگست 2024 میں 10.83 روپے کا خالص اثر پڑے گا۔

انہوں نے حالیہ گرمی کی لہر اور کراچی کے عوام کو ملنے والے توانائی کے بھاری بلوں پر غور کرنے کا مشورہ دیا، انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کی صورتحال بڑے پیمانے پر تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔

ریحان جاوید نے مزید کہا کہ عوام اور صنعتوں کو پہلے ہی بہت زیادہ بل موصول ہو رہے ہیں اور اگر 2.92 روپے فی یونٹ کی زیادہ رقم وصول کی گئی تو یہ صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے جس سے امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔

انہوں نے نیپرا سے درخواست کی کہ مئی 2024 کے لیے صرف ایک روپے فی یونٹ چارج کیا جائے کیونکہ یہ پہلے ہی ایک عارضی رقم ہے جسے بعد میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا، “ہم تجویز کرتے ہیں کہ موسم سرما کے مہینوں کے دوران جب بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے تو بقیہ طے شدہ رقم کو ایڈجسٹ کیا جائے۔

کورنگی ایسوسی ایشن کے نمائندے کے جواب میں چیئرمین نے تجویز دی کہ ایف سی اے کے اثرات کو کم کرنے کی باضابطہ درخواست نیپرا کو بھیجی جائے جو نیپرا ایکٹ کے مطابق اس پر غور کرے گی۔

سی ایف او عامر غازیانی اور ڈائریکٹر فنانس ایاز جعفر کی سربراہی میں کے الیکٹرک کی ٹیم نے اتھارٹی کو پریزنٹیشن دی اور عوامی سماعت کے دوران اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دیئے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments