گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان کے دستاویزی شعبے میں اپنی تاریخ کا سب سے ڈرامائی سکڑاؤ دیکھنے میں آیا ہے ، اگر ایل ایس ایم میں گراوٹ کافی ثبوت نہیں ہے تو پھر نجی شعبے کے کاروباری اداروں کو بینکنگ سیکڑ کے قرض کے علاوہ کچھ اور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ سے نجی شعبے کے کاروباری اداروں کو بمشکل قرضوں کی فراہمی ہوئی ہے جو اب بھی دسمبر 2022 کی اپنی بلند ترین سطح سے نیچے ہے۔
تاریخی شرح سود کے درمیان نجی شعبے کی خریداری رک گئی ہے جو شاید بیشتر مبصرین کے لئے حیران کن نہیں لیکن یہاں ایک اہم بات یہ ہے: حقیقی معنوں میں (جب افراط زر کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے) نجی شعبے کے کاروبار کو واجب الادا بینک قرضے ایک دہائی میں اپنی کم ترین سطح پر ہیں، جو دستاویزی نجی شعبے میں تجارتی سرگرمیوں کے مجموعی حجم میں کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نجی شعبے میں بینکنگ سیکٹر کے قرض میں کمی نے کارپوریٹ سیکٹر کی فرموں کو ایس ایم ایز کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید نقصان پہنچایا ہے۔ درحقیقت ایس ایم ایز کو قرض پہلے ہی بحال ہوتا دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ مالیاتی سکڑاؤ پوری رفتار سے جاری ہے۔ لیکن یہ بینکنگ سیکڑ کی جانب سے ہاتھ کھینچنے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ہر سال کمرشل بینک افراط زر کی روشنی میں اپنے مالی اعانت یافتہ اثاثوں کے پورٹ فولیو کی دوبارہ درجہ بندی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سی فرمز، کاروباری اداروں اور اسپانسر گروپوں کو پہلے ’کارپوریٹ‘ یا ’بڑے پیمانے پر‘ قرار دیا جاتا تھا جو ان کے سالانہ ٹرن اوور یا ایکوٹی پوزیشن کی بنیاد پر نظر انداز کیے جاتے تھے جس کے نتیجے میں ان کی کمرشل، مڈل مارکیٹ یا ایس ایم ای کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کی جاتی تھی۔ اس تحریر کے وقت، 7.5 ارب روپے سے کم سالانہ کاروبار کرنے والی کوئی بھی فرم شاید بیشتر بینکوں کے ساتھ کارپوریٹ بینکنگ گروپوں کا حصہ نہیں ہے (اگرچہ درست تعریف اور درجہ بندی بینکوں میں مختلف ہوسکتی ہے اور اسپانسر گروپ تعلقات کی بنیاد پر استثنیٰ موجود ہوسکتے ہیں)۔
لہٰذا ایس ایم ایز کے لیے قرضوں میں اضافہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے کارپوریٹ قرضوں میں کمی واقع ہوتی ہے ، خاص طور پر جون اور دسمبر کے آس پاس –یہ پورٹ فولیو کی دوبارہ درجہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے ، بجائے اس کے کہ ایس ایم ای فرموں کی جانب سے قرض لینے میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ہو۔ اس بات کی مزید تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ مالی سال کے اختتام پر ایک لمبی چھلانگ ریکارڈ ہونے کے بعد ایس ایم ای کے واجب الادا قرضوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کو پیشگی قرضوں کی طرح مجموعی طور پر واجب الادا ایس ایم ای قرضے ختم ہورہے ہیں۔
تاہم قیمتوں کے محاذ پر حقیقی پیش رفت ہورہی ہے۔ اگرچہ نجی شعبے کی فرموں کو مجموعی طور پر قرضوں کی وصولی یقینی طور پر سکڑ رہی ہے ، لیکن قرض دینے کی نوعیت اور معیارتیزی سے تبدیل ہورہا ہے ۔ اگرچہ رعایتی کریڈٹ پورٹ فولیو میں گزشتہ دو سال کے دوران 200 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اسی عرصے کے دوران کمرشل شرائط (یا قیمتوں) پر قرضوں میں 700 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو رعایتی قرضوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی شعبے کے قرضوں میں خالص اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ نجی شعبے کے قرضوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس بار تجارتی شرائط پر اور ممکنہ طور پر مضبوط بنیادوں پر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بحالی شرح سود میں کمی آنے سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی، امید پیدا ہوتی ہے کہ مالیاتی نرمی کا اگلا دور شاید پچھلے کے مقابلے میں مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔ رعایتی فنانس کے دروازے مستقل طور پر بند ہونے کی وجہ سے (امید ہے) بینک اب نجی شعبے کے قرضوں میں خطرے سے متعلق ٹھوس فیصلے کریں گے اور سسٹم میں مصنوعی طریقوں کے ذریعے بحالی شروع کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
باضابطہ طور پر پاکستان کے نجی شعبے کو گزشتہ دو سالوں کے صدمے سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا ۔ لیکن سکڑاؤ کے مشکل مرحلے کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ اس بار معاشی بحالی ٹھوس بنیادوں پر تعمیر کی جائے گی۔