امیگریشن سپورٹ سروسز فرم کے مطابق دبئی کو باصلاحیت افراد کو راغب کرنے کی کوششوں کا فائدہ ہورہا ہے کیونکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد امارات میں منتقل ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے، یہ شہر اب اپنی معیشت کو بڑھانے کیلئے صرف سیاحوں پر انحصار نہیں کررہا بلکہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔
رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں تیزی سے اضافے کے ساتھ شہر میں سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی طلب کی جھلک پیش کرنے کے ساتھ اس کے ویزوں اور ملازمت کے امکانات کے بارے میں بڑھتے ہوئے سوالات بھی پیشہ ور افراد کو دلچسپی میں ڈال رہے ہیں کیونکہ یہ شہر آہستہ آہستہ سیاحتی مقام سے کاروبار اور ٹیکنالوجی پر مبنی مرکز میں تبدیل ہورہا ہے۔
مزید برآں پاکستان کی معیشت میں گراوٹ جس میں ہر سال گریجویٹس کی بڑھتی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے خاطر خواہ ترقی نہیں دیکھی جارہی ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی اور سماجی ہلچل بھی لوگوں کو دیگر آپشنز تلاش کرنے پر مجبور کررہی ہے ۔
کئی پاکستانی کمپنیاں پہلے ہی دبئی میں اپنا ماتحت ادارہ قائم کرنے کا اعلان کرچکی ہیں اور شہر کے انفرااسٹرکچراور رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری کے منصوبے بھی بہترامکانات کیلئے بیرون ملک جانے کے خواہاں پاکستانیوں کیلئے روزگار کی ایک بڑی کشش ہیں۔
بزنس ریکارڈر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کراچی میں قائم امیگریشن سپورٹ سروس فرم سپیریئر کنسلٹنگ کے ڈائریکٹر اور بانی عادل اسماعیل نے کہا کہ دبئی مواقع اور فوائد کا امتزاج پیش کرتا ہے جو اسے پاکستانی پیشہ ور افراد کے لئے ایک مثالی منزل بناتا ہے۔
بڑھتی مسابقت کی وجہ سے دبئی کی ملازمت کی مارکیٹ مشکل ہے لیکن گلف نیوز میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جس نے ایک سروے کا حوالہ دیا ہے ، متحدہ عرب امارات کے 60 فیصد سے زیادہ کاروباری رہنماؤں کو توقع ہے کہ اگلے 12 مہینوں میں ان کی کمپنیوں میں ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔
عادل اسماعیل نے کہا کہ دبئی میں ملازمت کی مارکیٹ ٹیکنالوجی، صحت کی دیکھ بھال ، مالیات اور تعمیرات میں مہارت کی اعلیٰ مانگ کے ساتھ مسلسل ترقی کررہی ہے۔
آجر ایسے امیدواروں کی تلاش میں ہیں جو مضبوط تکنیکی مہارت، متعلقہ صنعت کا سرٹیفکیٹ اور بھرپور تجربہ رکھتے ہیں۔
تاہم پاکستانی پیشہ ور افراد کو پیچیدہ ویزا اور امیگریشن کے عمل میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لئے ایک معروف امیگریشن کنسلٹنسی کے ساتھ کام کرنے کا مشورہ دیا۔
دبئی کی معیشت برسوں سے سیاحت کی آمدن پر منحصر ہونے سے زیادہ متنوع مارکیٹ میں منتقل ہوگئی ہے۔
دنیا کے بلند ترین ٹاور اور انسانی ساختہ جزائر کا گھر، دبئی نئے اہداف کا تعاقب کر رہا ہے : ڈی 33 کے نام سے جانا جانے والا 10 سالہ اقتصادی منصوبہ کا مقصد معیشت کے حجم کو دگنا کرنا اور دبئی کو ایک دہائی میں سرفہرست چار عالمی مالیاتی مراکز میں سے ایک بنانا ہے ۔ یہ 2040 تک اپنے عوامی ساحلوں کی لمبائی 21 کلومیٹر سے بڑھا کر 105 کلومیٹر کرنا چاہتا ہے اور 2008 کے مالی بحران کے تناظر میں چھوڑے گئے پام جبل علی جزیرے کو بحال کرنا چاہتا ہے۔
پراپرٹی ایک بار پھر عروج پر ہے اور اس بار کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2008 کے عالمی کریڈٹ بحران کے بعد دبئی کو درپیش مسائل کے دوبارہ اعادہ کے خلاف مزید احتیاط برتی جائے گی ۔ بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھارت، پاکستان اور مشرق وسطیٰ جیسی روایتی مارکیٹوں کے سرمایہ کار آسٹریلیا، برطانیہ، یورپ، ترکی اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں میں شامل ہوں گے کیونکہ دبئی کی ریڈ ہاٹ پراپرٹی مارکیٹ سست روی کی توقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے بین الاقوامی خریداروں کو راغب کررہی ہے۔
صنعت کے ماہرین کے مطابق دبئی کا محل وقوع، سازگار ٹیکس فری ماحول، اعلی منافع اور ان کے آبائی ممالک میں چیلنجنگ ماحول سرمایہ کاروں کے ریڈار پر رہنے کی بڑی وجوہات ہوں گی۔
مزید برآں قابل تجدید توانائی ، ای کامرس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں پر اس کی توجہ نئے مواقع پیش کرتی ہے۔ صحت اور تندرستی پر بڑھتی ہوئی توجہ کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔
ہینلے اینڈ پارٹنرز کی جانب سے مئی 2024 میں جاری کی جانے والی سالانہ درجہ بندی میں بتایا گیا تھا کہ زندگی گزارنے کی لاگت کے لحاظ سے اگرچہ دبئی کچھ دیگر مقامات کے مقابلے میں نسبتا زیادہ مہنگا ہے، لیکن اسے مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ کروڑ پتی افراد والا شہر بھی قرار دیا گیا تھا۔
ٹیکس فری انکم پالیسی اور معیار زندگی اسے ایک پرکشش انتخاب بناتا ہے۔
عادل اسماعیل نے کہا کہ دبئی میں تنخواہیں وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہیں، ٹیکنالوجی اور فنانس کے پیشہ ور افراد مسابقتی معاوضے کے مالک ہیں۔
شہر میں مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے عادل اسماعیل پاکستانی پیشہ ور افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایسے پیکجز پر تحقیق کریں اور ان پر بات چیت کریں جن میں ہاؤسنگ الاؤنسز، ہیلتھ انشورنس اور گھر کی سالانہ پروازیں شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ صحیح حمایت اور رہنمائی کے ساتھ، دبئی پاکستانی کاروباری اداروں، اعلی ٹیلنٹ اور ہنر مند پیشہ ور افراد کے لئے ایک منافع بخش منزل بن سکتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024