تنخواہ دار طبقہ احتجاجاً سڑکوں پر

24 جولائ 2024

بجلی کے خلاف احتجاج کرنے والا پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ دفاتروں ، ملازمتوں کے اوقات کار کے بعد شام ساڑھے پانچ بجے کراچی کی سڑکوں پر نکل آیا کیونکہ شدید گرمی اور دفتری خدشات کی وجہ سے گروپ نے احتجاج کیلئے شام کے وقت کا انتخاب کیا۔

تنخواہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرنے والے نسبتا نو تشکیل شدہ گروپ ’تنخواہ دار طبقے کے اتحاد‘ کے ایک رکن نے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کے حق میں اگرچہ احتجاج کررہے ہیں تاہم بڑے پیمانے پر احتجاج کیلئے وہ بھی غور و فکر کررہے ہیں۔

منگل کے روز اتحاد نے، جیسا کہ وہ خود کو کہنا پسند کرتا ہے – شاید ہر دوسرے شعبے میں رائج ایسوسی ایشنوں اور کونسلوں سے خود کو الگ کرنے کی کوشش میں – کراچی پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرہ کیا جس میں بجٹ 2024-25 میں تنخواہ دار گروپ پر ٹیکس میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

ان کے احتجاج کے وقت دیگر مظاہرے بھی ہورہے تھے – ایک اساتذہ کا اور دوسرا بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج کرنے والے چند لوگوں کا مظاہرہ ہورہا تھا۔ تاہم پاکستان کی موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو یہ احتجاج اور مفادات ایک دوسرے سے نتھی ہیں۔

بڑھتے ہوئے افراط زر، توانائی کے نرخوں میں اضافہ، لوڈ شیڈنگ اور ٹیکسوں میں اضافہ یہ سب زندگی کا حصہ بن چکے ہیں کیونکہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک پروگرام سے دوسرے پروگرام میں منتقل ہوگیا ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا لیکن جب یہ ’ممکن‘ ہو۔ تین سالہ پروگرام کے لیے اسٹاف لیول کے ہونے والے معاہدے کے بعد بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کسی بھی قسم کی امداد میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف نعرے لگانے والے مظاہرین کی تعداد اگرچہ پچاس سے زائد نہیں تھی تاہم یہ احتجاج گزشتہ ماہ ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے تسلسل کے طور پر پر سامنے آیا ہے جس میں گروپ نے پہلی بار عوامی سطح پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ایک رکن کومل علی نے کہا کہ اتحاد سے وابستہ بہت سے لوگ احتجاج میں شامل نہیں ہو سکے کیونکہ کراچی پریس کلب کی طرف جانے والی کچھ سڑکیں ہیں جبکہ شہر میں ٹریفک جام ہے۔

بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ بوہرہ برادری کے رہنما کی گورنر ہاو¿س آمد کے موقع پر سخت سیکورٹی کے سبب ٹریفک جام ہوا۔

دریں اثنا بزنس ریکارڈر سے گفتگو میںکومل علی نے کہا کہ گروپ چاہتا ہے کہ حکومت تنخواہ دار افراد کی حالت زار سنے اور ٹیکسوں میں کمی کرے۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ افراط زر میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے اور حکومت کی جانب سے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا انتہائی غیر منصفانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبات سنیں، ہم دوسروں کی طرح ہڑتالیں کرنا نہیں چاہتے، ہم درخواست اور توقع کرتے ہیں کہ حکومت ہمارے مطالبات کو سنے گی۔

ان کا یہ حوالہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بجٹ کے اعلان کے بعد کئی شعبوں نے اپنے اپنے انداز میں احتجاج کیا اور فلور ملز، سیمنٹ اور پیٹرولیم ڈیلرز، ریٹیلرز نے حکومت کے خلاف اپنی شکایات درج کروائیں۔

تاہم تنخواہ دار طبقہ زیادہ پرسکون، لچکدار اور صبر کرنے والا رہا ہے، ہڑتالوں کے بجائے وہ قانونی راستے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔

گروپ کے ایک اور رکن ناصر حسین نے کہا کہ مہنگائی اور زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے تنخواہ دار افراد بھی اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تنخواہوں کا تقریبا 60 سے70 فیصد ٹیکسوں اور یوٹیلیٹیز پر خرچ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی اپنے طرز زندگی کو کیسے بہتر بنا سکتا ہے اور اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کیسے فراہم کرسکتا ہے جبکہ حکومت بدلے میں کچھ بھی نہیں دیتی – سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ، تعلیم، سیکورٹی یا صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا۔

شاداب جاوید، جو شاید سب سے کم عمر تھے، دوسروں کے خیالات سے اتفاق کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف میں نہیں ہوں، میرے ارد گرد ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی نہ کوئی موقع ہے وہ پاکستان سے باہر منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہا ہے، حکومت متوسط آمدنی والے طبقے کے لئے چیزوں کو مشکل بنا رہی ہے۔

اسلام آباد نے گزشتہ برسوں کے دوران تنخواہوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے اور 11 سالوں میں ان کے حصے میںسات گنا اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں یہ اضافہ خاص طور پر زیادہ رہا ہے۔

فنانس بل 2024 میں حکومت نے 50 ہزار روپے سے زائد آمدن والے تمام طبقات پر ٹیکسز کا بوجھ بڑادیا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ اس گروپ سے اضافی 70 ارب روپے ٹیکس حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اگرچہ حکومت نے انکم ٹیکس استثنیٰ کی حد کو نہیں چھویا – جو اب بھی پچاس ہزار روپے ہے – لیکن تنخواہوں کی دیگر تمام سطحوں پر ذمہ داری بڑھ گئی۔ مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے شخص کو اب 2500 روپے ماہانہ ادا کرنے ہوں گے جو پہلے کی 1250 روپے کی سطح سے 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ مالی سال کے دوران ایک کروڑ روپے سے زائد آمدن والے افراد پر 10 فیصد سرچارج بھی عائد کیا گیا ہے۔

Read Comments