بنوں کینٹ حملے پر پاکستان نے افغانستان سے سخت احتجاج کیا ہے۔ پاکستان نے طالبان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو دفترخارجہ طلب کرلیا اور ان کی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں مقیم عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرے جن کے بارے میں اسلام آباد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 15 جولائی کو بنوں چھاؤنی پر حملہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ 15 جولائی کو بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اس حوالے سے آئی ایس پی آر نے 16 جولائی کو واقعے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ چھاؤنی پر دہشت گردوں کے خود کش حملے میں سیکیورٹی فورسز کے 8 اہلکار شہید ہوگئے جب کہ چھاؤنی میں داخلے ہونے کی کوشش کرنے والے تمام 10 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر کی سربراہی میں عسکریت پسند گروپ نے قبول کی ہے جس کے بارے میں پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ وہ پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ہے ۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اس نے سرحد پار سے بڑھتے ہوئے حملوں کا معاملہ طالبان انتظامیہ کے ساتھ بار بار اٹھایا ہے جس سے ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔
طالبان جن کے ترجمان نے فوری طور پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا نے اس سے قبل عسکریت پسندوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔
دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ تنظیمیں پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں جب کہ ایسے واقعات دونوں برادر ممالک کے باہمی تعلقات کی روح کے بھی منافی ہیں۔
بیان میں طالبان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ بنوں حملے کے ذمہ داروں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کریں اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ایسے حملوں کو روکیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے مارچ میں متعدد دہشت گرد حملوں کے جواب میں افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کی تھیں۔