فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پورے مالی سال 2023-24 کے دوران 9.3 ٹریلین روپے جمع کیے ہیں جبکہ اصل ہدف 9.4 ٹریلین روپے تھا جو 100 ارب روپے کے شارٹ فال کو ظاہر کرتا ہے۔
ایف بی آر نے مالی سال 24-2023 میں 9252 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ ہدف کے مقابلے میں 9306 ارب روپے جمع کرنے کا اعلان کیا ہے جو سالانہ ہدف 54 ارب روپے سے زائد ہے۔
بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ٹیکس ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ بغیر کسی وضاحت کے ایف بی آر کے ہدف کو 9,415 ارب روپے کے اصل ہدف کے مقابلے میں 9,252 ارب روپے کر دینا چونکا دینے والا ہے ۔ یہ فیصلہ کیسے اور کب اور کس کے ذریعے لیا گیا اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
اس طرح ایف بی آر کی جانب سے حقیقی شرح نمو 30 فیصد نہیں بلکہ صرف 3 فیصد ہے ۔ ایف بی آر مسلسل تیسرے سال اصل ہدف کو پورا کرنے اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ ایف بی آر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے۔
وزیراعظم نے مختلف فورمز پر بار بار کہا کہ ملک میں 9.4 ٹریلین روپے کے سالانہ ٹیکس ہدف کے مقابلے میں 24 ٹریلین روپے سے زیادہ کا ریونیو اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن، نااہلی اور لاپرواہی کی وجہ سے سالانہ محصولات کے ہدف سے تقریبا تین گنا زیادہ رقم ضائع ہورہی ہے۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے مزید کہا کہ ایف بی آر نظر ثانی شدہ ہدف کے حصول کی تشہیر کررہا ہے لیکن تاریخی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایف بی آر اہداف کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام رہا ہے جس کے نتیجے میں عوام پر ٹیکسز کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال ایف بی آر کیلئے ناقابل حصول ٹیکس اہداف کا تعین اور پھر 3.879 ٹریلین روپے تک کے ٹیکس اخراجات (کل وصولی کا 36.4 فیصد اور گزشتہ سال کے مقابلے میں 73 فیصد زیادہ) ہماری اصل الجھن کی تصدیق کرتے ہیں ۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو بے ترتیب ٹیکسز اور اشرافیہ کو دی جانے والی بلاجواز ٹیکس مراعات پر غور کرنا چاہئے۔
فنانس ایکٹ، 2024 میں اعلان کردہ زیادہ تر اقدامات، جیسا کہ پارلیمنٹ نے منظور کیا، حد سے زیادہ ٹیکس لگانے کے مترادف ہے جو کہ کساد بازاری کی گہرائی میں ہے، جب کہ ذاتی مفادات کو ٹیکس کے بڑے فوائد جاری ہیں۔ٹیکس لگانے کے واقعات تنخواہ دار طبقے کی طرف بھی منتقل ہو گئے ہیں جو پہلے سے ہی افراط زر کا حقیقی نقصان محسوس کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس میں بددیانتی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنانس ایکٹ 2024 میں ایسا کچھ بھی نہیں جس سے ٹیکس کی شرح میں کمی کرکے ریونیو میں اضافہ کیا جاسکے اور 32 ٹریلین روپے کی اصل ٹیکس صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
ایک اور ٹیکس ماہر نے کہا کہ مالی سال 2023-24 میں کمی کے نتیجے میں مالی سال 2024-25 میں ہدف میں خود بخود اضافہ ہوگا ، تاہم ریفنڈ ادائیگیوں میں فیلڈ فارمیشنز میں بدعنوانی کے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے جو ایف بی آر آئی آر آپریشنز ونگ کی جانب سے نفاذ اور نگرانی کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔
حکومت نے یکم جولائی 2024 سے فنانس ایکٹ 2024 کے ذریعے اٹھائے گئے 1.761 ٹریلین روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کا نفاذ کیا ہے جس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھنا اور عام لوگوں پر بھاری بالواسطہ ٹیکس لگانا شامل ہے جس میں اسٹیشنری اشیاء، ڈیری مصنوعات اور پولٹری فیڈ پر سیلز ٹیکس کا نفاذ شامل ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر ریفنڈ کے واقعات کو روکنے میں بھی ناکام رہا جیسا کہ لاہور میں ہوا تھا ۔ ایف بی آر ریفنڈز مسائل کی وجہ سے لاہور کے آئی آر کے سینئر افسران کو معطل کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ٹیکس ایکسپرٹ نے مزید کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کر رہی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024