قومی اسمبلی کمیٹی کی ہدایت پر آئی پی پیز معاہدے منسوخ کرنے کیلئے تیار ہیں، پاور ڈویژن

  • پاور ڈویژن کا یہ بیان سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی کے اجلاس سے ایک روز قبل سامنے آیا ہے۔
اپ ڈیٹ 12 جولائ 2024

پاور ڈویژن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر کمیٹی کی طرف سے ایسی کوئی سفارش آتی ہے تو وہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔

آئی پی پیز کے معاہدوں کے بارے میں پاور ڈویژن کے ریمارکس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس سے ایک روز قبل سامنے آئے، جس کا سارا ایجنڈا آئی پی پیز کے گرد گھومتا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان اور آئی پی پیز اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

آئی پی پیز کے معاہدوں کا معاملہ ملک بھر میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بھاری کیپیسٹی چارجز کی ادائیگیوں، بے قابو گردشی قرضوں اور لوڈ شیڈنگ اور حد سے زیادہ ٹیرف کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سولرائزیشن کے پس منظر میں آیا۔

قائمہ کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے سیکرٹری پاور راشد محمود لنگڑیال نے ملک کے پاور سیکٹر کی مجموعی مایوس کن تصویر پیش کی جس کا خسارہ 600 ارب روپے سے زائد ہو گا جس کی منظوری ریگولیٹر نے دی تھی۔

جنریشن لاگت پر بحث کے دوران جو کہ موجودہ ٹیرف کا بنیادی عنصر ہے، رانا محمد حیات نے تجویز پیش کی کہ آئی پی پیز کا گلا گھونٹ کر ان سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

رانا حیات کے جواب میں سیکرٹری پاور نے کہا کہ کمیٹی جو ایک بااختیار فورم ہے آپ جو بھی سفارش کریں گے ہم کریں گے۔ کمیٹی ہمیں آئی پی پیز کے معاہدوں کی منسوخی کے لیے اپنی سفارشات بھیجے اور ہم یہ کریں گے۔

وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے قومی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین محمد ادریس کو تجویز پیش کی کہ وہ ہر آئی پی پی کا انفرادی طور پر پروفائل لیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے معاہدے کب ختم ہوں گے۔ ان کو کتنی ادائیگیاں ہو چکی ہیں؟ آیا آئی پی پیز کا وجود ملک کے لیے فائدہ مند ہے یا بہتر ہے کہ تمام واجبات کو ختم کر کے انہیں ریٹائر کر دیا جائے اور اگر حکومت آئی پی پیز سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لے تو ملک کو کیا قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے مزید کہا۔”ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں اور آپ کو مستقبل میں اس معاملے پر اچھی خبر ملے گی،“

ان کا خیال تھا کہ ہائیڈل پراجیکٹس کی لاگت پہلے دن سے ٹیرف میں شامل ہے، آئی پی پیز کے برعکس جو آپریشن کی تاریخ سے ادائیگی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے 10 سال تک ہائیڈل جنریشن کی لاگت 25 روپے فی یونٹ ہے جس کے بعد اسے کم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاور ڈویژن اپنی سمجھ کے مطابق پاور سیکٹر کی ”غلطیوں“ کی نشاندہی کرے گا اور اصلاحی اقدامات کرے گا اور ان غلطیوں کو دور کرنے کے لیے اراکین کی اپنی تجاویز کے ساتھ کمیٹی سے رائے طلب کرے گا۔

سیکرٹری پاور نے وضاحت کی کہ ملک کی نصب صلاحیت 44,980 میگاواٹ ہے لیکن موثر آپریشنل صلاحیت 22,879 میگاواٹ ہے جس میں سے ہائیڈل کی موثر آپریشنل صلاحیت 7,315 میگاواٹ، آر ایل این جی 4,499 میگاواٹ، آر ایف او 1,234 میگاواٹ، کوئلہ 4909 میگاواٹ، گیس 1,317 میگاواٹ، نیوکلیئر، 2,965 میگاواٹ، ہوا 435 میگاواٹ، سولر 104 میگاواٹ اور بیگاس 99 میگاواٹ ہے۔

سیکرٹری پاور نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ڈسکوز اور کے الیکٹرک بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ”ٹیکس جمع کرنے والے ایجنٹس“ کا کام انجام دے رہے ہیں اور سالانہ 700 سے 800 ارب روپے اکٹھے کر رہے ہیں، کیونکہ بجلی کے بلوں پر آٹھ مختلف ٹیکس لگائے گئے ہیں، انکم ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس، مزید ٹیکس، اضافی سیلز ٹیکس، ریٹیلر سیلز ٹیکس، صوبوں کی طرف سے بجلی کی ڈیوٹی اور پی ٹی وی فیس وغیرہ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 30 جون 2024 تک گردشی قرضوں کا حجم 2.393 ٹریلین روپے تھا جس میں 83 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2.310 ٹریلین روپے کی سطح پر رہے گا لیکن وہ اس عزم کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

وزیر توانائی اور سیکرٹری توانائی نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے ڈسکوز کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے پرائیویٹائزیشن کمیشن اور ورلڈ بینک مل کر کام کر رہے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments