وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی نجکاری پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس منعقد کیا۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ادارے کی نجکاری کے دوران اس کے ملازمین کے تحفظ کو مدنظر رکھا جائے گا۔
اجلاس میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی نجکاری کے تکنیکی اور قانونی پہلوؤں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور نجکاری کمیشن کے افسران کے ہمراہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری گروپ کے ساتھ مذاکراتی سیشن منعقد کیا گیا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی جلد از جلد نجکاری پر زور دیا ، اس سلسلے میں انہوں نے تمام طریقہ کار اور قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی۔
قبل ازیں وفاقی وزیر برائے نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات علیم خان کی زیر صدارت نجکاری کمیشن بورڈ کے 220 ویں اجلاس میں پی سی بی کے 218 اور 219 کے اجلاس کی کارروائی کی منظوری دی گئی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پی سی بی متعلقہ محکموں بشمول فنانس، لاء اور ایوی ایشن سے رابطے میں ہے۔
مزید برآں روزویلٹ ہوٹل کے لیے فنانشل ایڈوائزر کی تقرری اور نجکاری کے دیگر منصوبوں کے اشتہارات بھی بین الاقوامی میڈیا میں دیے گئے ہیں۔
بورڈ اجلاس میں مزید اداروں کو نجکاری کے لئے شارٹ لسٹ کیا گیا جب کہ اس سلسلے میں فوری پیش رفت کو یقینی بنانے کے لئے تبادلہ خیال کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات علیم خان کی زیر صدارت بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں مختلف اداروں کی نجکاری کو حتمی شکل دینے اور اس سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
علیم خان نے ہدایت کی کہ قومی اداروں کی نجکاری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ رکھا جائے اور نجکاری کمیشن سنجیدہ پیشکشوں کے ساتھ سامنے آنے والی کمپنیوں کے ساتھ مکمل تعاون کو یقینی بنائے۔
علیم خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کی جلد از جلد نجکاری کی جائے لہٰذا اس حوالے سے بقیہ عمل مکمل کرتے ہوئے مزید تاخیر نہ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ نجکاری کمیشن وفاقی حکومت پر انحصار کم کرکے مالی خودمختاری حاصل کرے اور اپنے وسائل میں اضافے کو یقینی بنائے۔
علیم خان نے ہدایت کی کہ نجکاری کی تمام تجاویز میڈیا کی موجودگی میں کیمروں کے سامنے رکھی جائیں تاکہ اس کی شفافیت پر کوئی سوال نہ اٹھے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024