وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ 67.76 ارب ڈالر کے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد رواں ماہ (جولائی) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پاکستان ایک بڑے اور طویل بیل آؤٹ معاہدے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو۔
پاکستان نے 3 ارب ڈالر کے پروگرام کی تکمیل کے فوری بعد آئی ایم ایف حکام کے ساتھ نئے قرض پروگرام پر بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی مالی ادارے نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے مئی میں اپنا وفد پاکستان بھیجا تھا۔
وفاقی دارالحکومت میں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ رواں ماہ ہمیں ایم ایف سے ایک اچھے معاہدہ ہونے کی امید ہے۔
انہوں نے مزید کہا میں بہت پرامید ہوں کہ ہم اسے ایک توسیعی فنڈ پروگرام کے لئے اختتامی لائن کے ذریعے لے جانے کے قابل ہوں گے، جو وسیع اور طویل نوعیت کا ہے۔
وزیر خزانہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اس پروگرام کو آئی ایم ایف کی طرف سے مالی اعانت اور حمایت کے طور پر دیکھتے ہیں جو پاکستان کی خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی اپنی کوششوں کا حصہ ہے۔
ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے کیونکہ نہ صرف یہ آئی ایف آئیز (بین الاقوامی مالیاتی ادارے) بلکہ ہمارے دوست ممالک بھی بیک اسٹاپ چاہتے ہیں جو فنڈ پروگرام ہے۔ ہمیں اگلے تین سال میں کیا کرنا ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ یہ ہمارا آخری پروگرام ہو۔
انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے کی طرف بڑھنے کے لئے ورچوئل بات چیت کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے وفد کے پاکستان میں قیام کے دوران بنیادی فریم ورک تیار کیا گیا تھا جس میں پیشگی اقدامات بھی شامل تھے ۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کے اسٹرکچرل بینچ مارک گزشتہ تین چار سال سے ایک جیسے ہیں جبکہ پاکستان نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔
اب ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ ہم پر بھروسہ کریں اور ہم ایسا کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں معاشی استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے ، افراط زر کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد رہ گئی ہے۔
سیلز ٹیکس میں 750 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں۔
انہوں نے یقین دلایا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور آئندہ 2 سے 3 دنوں میں 50 ارب روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس ریفنڈز پر کارروائی کی جائے گی ۔ ٹیکس کیسز کی وجہ سے 2700 ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں اور ان میں سے آدھے کو بھی حل کرنا معیشت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوگا۔
انہوں نے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے مقصد سے پیش رفت اور جاری اصلاحات کے اہم شعبوں پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی کوششوں سے غیر ملکی اداروں کا اعتماد بحال ہوا ہے جس کا ثبوت عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کے منصوبے کی منظوری ہے ۔ مزید برآں ملک کے زرمبادلہ ذخائر 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
محمد اورنگ زیب نے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں جاری بات چیت کا انکشاف کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے 9300 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے حصول کے بارے میں امید کا اظہار کیا اور کہا کہ گزشتہ تین سال میں ٹیکس جی ڈی پی کے 12 فیصد کی شرح سے ادا کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے توانائی اور پٹرولیم شعبوں میں اصلاحات کے منصوبوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان شعبوں میں بہتری سے پائیدار معاشی استحکام آئے گا اور ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس چوری کی روک تھام اور بدعنوانی کی روک تھام کی اہمیت پر زور دیا جس کے بارے میں ان کے خیال میں ٹیکس وصولی میں شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔
وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ تعمیراتی شعبے اور سپلائی سائیڈ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے ۔ ایک نئی پنشن اسکیم آج سے نافذ کی جارہی ہے جس کا مقصد ریٹائر ہونے والوں کو بہتر مالی تحفظ فراہم کرنا ہے۔
محمد اورنگزیب نے تصدیق کی کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل پیرا ہے جس میں 3.9 ٹریلین روپے کی ٹیکس چھوٹ بھی شامل ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت صرف پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر انحصار کرنے کے بجائے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کی طرف بڑھ رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں فی الحال اضافہ نہیں ہورہا اور 70 روپے پی ڈی ایل کی موجودہ شرح کا اطلاق نہیں ہوگا۔اس اقدام کا مقصد ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔