11 ستمبر 2001 کو ٹوئن ٹاورز پر ہونے والے ہولناک حملوں میں بے گناہ امریکیوں کی جانیں گئیں، جو اس صبح اپنے گھروں سے نکلے تو تھے لیکن اپنے خاندانوں کے پاس واپس نہیں پہنچے، جن کے لیے وہ روزی کمانے نکلے تھے۔
اس گھناؤنے واقعہ نے عالمی برادری کو ان لوگوں کے خلاف لڑنے کے لئے متحد کر دیا جو انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے فرنٹ لائن اسٹیٹ اور اسٹریٹجک پارٹنر کی حیثیت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں مضبوطی سے کھڑا رہا جب تک کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں اگست 2021 میں امریکہ کا افغانستان سے انخلا نہیں ہو گیا۔
دو دہائیوں پر محیط اس تنازعے کے دوران، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی کامیابیاں اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاہم، پاکستان اور اس کے عوام کو ہونے والے نقصانات اور جاری مصائب بے شمار اور ناقابل تردید ہیں۔ 2001 ء سے پاکستان کو امن و امان کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں شدید جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
پاکستان اکنامک سروے 15-2014 کے مطابق ملک کو تقریبا 106.98 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جو 8702.75 ارب روپے کے مساوی ہے۔ یہ نقصانات گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والے دہشت گرد حملوں سے ہونے والے معاشی نقصانات کی عکاسی کرتے ہیں۔
نقصانات کی سال وار تقسیم سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو مالی سال 02-2001 میں 2.67 ارب ڈالر، 03-2002 میں 2.75 ارب ڈالر، 04-2003 میں 2.93 ارب ڈالر، 05-2004 میں 3.41 ارب ڈالر، 06-2005 میں 3.99 ارب ڈالر،07-2006 میں 4.67 ارب ڈالر، 08-2007 میں 6.94 ارب ڈالر،09-2008 میں 9.18 ارب ڈالر، 10-2009 میں 13.56 ارب ڈالر، 11-2010 میں 23.77 ارب ڈالر، 12-2011 میں 11.98 ارب ڈالر،13-2012 میں 9.97 ارب ڈالر،14-2013 میں 6.63 ارب ڈالر اور مالی سال 15-2014 میں 4.53 ارب ڈالر نقصان اٹھانا پڑا۔
اسی طرح 31 مارچ 2015 کو ڈان نے نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ مینجمنٹ سے وابستہ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) اور دیگر جنگ مخالف گروپوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ 2005 سے 2013 کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریبا 80 ہزار پاکستانی مارے گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2013 کے آخر تک 26 ہزار 862 دہشت گردمارے گئے جبکہ 5 ہزار 498 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نیشنل کنسورشیم آف ٹیررازم فار دی اسٹڈی آف ٹیررازم اینڈ ریسپانس ٹو ٹیررازم (اسٹارٹ) نے 2017 میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 2016 کے مقابلے میں 2017 میں پاکستان میں رپورٹ ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 22 فیصد اور ہلاکتوں میں 11 فیصد کمی دیکھی گئی تاہم زخمیوں کی تعداد میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان میں ہونے والی تمام ہلاکتوں میں مجرموں کی ہلاکتوں کا حصہ نو فیصد ہے جو عالمی اوسط 24 فیصد سے کم ہے۔ 72 فیصد حملوں میں نامعلوم افراد شامل تھے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے شناخت شدہ حملوں میں سے 38 فیصد کو انجام دیا، جو 2013 میں 139 سے کم ہو کر 60 حملے رہ گئے۔
داعش خراسان نے 27 فیصد حملے کیے، 43 حملوں (13 فیصد سے زائد) کے ساتھ ان کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں 330 ہلاکتیں (45 فیصد سے زائد) اور 800 سے زیادہ زخمی (85 فیصد سے زائد) ہوئے۔ لشکر جھنگوی اور مختلف بلوچ قوم پرست گروہوں نے بھی حملے کیے جن میں سے زیادہ تر عام شہریوں (32 فیصد)، پولیس (21 فیصد) اور سرکاری اداروں (10 فیصد) کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان (47 فیصد) اور خیبر پختونخوا (19 فیصد) صوبوں میں سب سے زیادہ حملے ہوئے، 2013 کے بعد سے خیبر پختونخوا اور سندھ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کم حملوں کے باوجود، سندھ میں 2017 میں ایک صوفی مزار پر بڑے حملے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہوگئی۔
وژن آف ہیومینٹی کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان نے مجموعی طور پر 7.93 اسکور حاصل کیا اور 163 ممالک میں پانچویں نمبر پررہا۔
رپورٹ میں دہشت گردی کے 222 واقعات کی نشاندہی کی گئی جن میں 502 افراد ہلاک اور 1014 زخمی ہوئے جبکہ 3 یرغمالی شامل ہیں۔ 2019 میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد کم ہو کر 140 رہ گئی، ہلاکتوں کی تعداد کم ہو کر 250 رہ گئی، زخمیوں کی تعداد 589 رہ گئی اور 9 کو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا۔
پاکستان میں 2020 میں دہشت گردی کے 173 واقعات پیش آئے جن میں یرغمالیوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اتنی ہی رہی۔ تاہم، ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 263 ہو گئی، اور دہشت گرد حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 583 ہو گئی۔
2021 میں گلوبل ٹیررازم انڈیکس پر پاکستان کا مجموعی اسکور 7.32 رہا جو 163 ممالک میں نویں نمبر پر ہے۔ اس سال 206 دہشت گرد حملوں میں 292 افراد ہلاک ہوئے، جس کے نتیجے میں 549 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کسی کے یرغمال ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
سال 2022 افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی آبادکاری کے بعد پہلا سال تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک منصوبے کے تحت حکومت نے ٹی ٹی پی کے کم از کم 5 ہزار جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کو منتقل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ جن کی کل تعداد تقریباً 35,000 تھی، جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ کیا گیا۔
سال 2022 میں گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان کا اسکور بڑھ کر 7.61 ہو گیا جبکہ 365 دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 509 اور 872 افراد زخمی ہوئے۔
یرغمالیوں کی تعداد 33 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اسی طرح 2023 میں پاکستان کا مجموعی اسکور 7.92 ریکارڈ کیا گیا جبکہ 490 دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 689 ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح کے زخمی ہونے والوں میں 1173 افراد شامل تھے جبکہ یرغمالیوں کی تعداد 24 بتائی گئی ہے۔
جب سے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی آبادکاری ہوئی ہے اورافغانستان میں طالبان کی واپسی ہوئی ہے، لوگوں نے دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی خبر میں بتایا کہ “گزشتہ دو سالوں میں ملک میں پرتشدد واقعات میں نمایاں اضافہ اگست 2021 میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہوا ہے۔ 2023 میں 650 سے زائد حملوں میں تقریبا 1000 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا۔
بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق 2024 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات پیش آئے جن کے نتیجے میں 432 افراد ہلاک اور 370 زخمی ہوئے۔ اس بڑھتی ہوئی سنگین صورتحال میں، دہشت گرد حملے ہر روز زیادہ جانیں لے رہے ہیں اور اہم معاشی نقصانات کا سبب بن رہے ہیں.
مزید برآں انجینئرز اور کارکنوں سمیت چینی اہلکاروں پر ٹارگٹڈ حملے پاکستان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوششوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پاکستان اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے فیز II کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی زونز میں صنعتوں کے قیام پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
ان اقدامات کی کامیابی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ تاہم، کاروباری اداروں اور غیر ملکیوں پر ٹارگٹ حملے ملک کے معاشی امکانات کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی اپیکس کمیٹی نے 22 جون 2024 کو ایک اسٹریٹجک پلان تیار کیا، جس میں عسکریت پسندوں کے خلاف ان کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے عزم استحکام آپریشن کی اجازت دی گئی۔ اس سے قبل پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی جن میں دو بڑے آپریشن 2009 میں سوات میں راہ راست اور شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے ساتھ جون 2014 میں پاک افغان سرحد پر آپریشن شامل ہیں۔
آپریشن عزمِ استحکام سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں کیونکہ ملک دہشت گردی کا مقابلہ جاری نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کو پہلے ہی مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں 8500 ارب روپے کے مالیاتی خسارے کے درمیان اپنی معیشت کو بحال کرنے کے مشکل کام کا سامنا ہے۔ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور ترقی کو تیز کرنے کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان کو سرمایہ کاروں اور اپنے شراکت داروں کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنانا چاہیے۔
حکومت کی توجہ موثر حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد اور امن و امان برقرار رکھنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اپیکس کمیٹی کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن عزم استحکم شروع کرنے کا فیصلہ جیسے اقدامات ملک میں امن کی بحالی کے لیے درست قدم ہے۔ تاہم دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے درست انٹیلی جنس اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
شہری ہلاکتوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے رول آف انگیجمنٹ کی سختی سے پابندی ضروری ہے۔ آپریشن کے بعد، شہریوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے ایک جامع منصوبہ سب سے اہم کام ہے۔
تاہم بحیثیت قوم ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ متحد ہو کر پرامن، خوشحال پاکستان کی راہ ہموار ہوگی، معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جائے گا اور ہماری اجتماعی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024