وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی اختتامی تقریر کے بعد ایوان میں کہا کہ ان کی انتظامیہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تعاون سے بجٹ بنائے تاکہ آئی ایم ایف کے مطالبات سے ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے اور وہ قبل از وقت کوئی بیان دینے سے گریز کریں گے تاہم بدھ کو عالمی مالیاتی فنڈ سے اچھی خبر ملنے کی امید ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان سے دو انتہائی پریشان کن مشاہدات سامنے آتے ہیں۔
اگر آئی ایم ایف نے 10 جون کو پیش کیے گئے بجٹ کی منظوری دے دی تو بہت سے ملکی ماہرین اقتصادیات کو موجودہ اخراجات میں 21 فیصد اضافے پر سخت اعتراض کرنا چاہیے (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 27 فیصد اضافہ کیا گیا حالانکہ یہ رقم 24-2023 کے نظر ثانی شدہ تخمینوں کے مقابلے میں مجموعی کرنٹ اخراجات کے جزو کے طور پر 0.1 فیصد کمی کی عکاسی کرتی ہے) اورمقامی قرضوں کی ادائیگی میں بھی 21 فیصد اضافے کا امکان ہے جو حکومت کے قرضوں میں 80 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے جس سے نجی شعبے کے قرضے متاثر ہوں گے اور افراط زر میں اضافہ ہوگا۔
اور اگر آئی ایم ایف جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے کہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے ارکان کی جانب سے کی گئی کچھ سفارشات کو شامل کرنے کے بعد فنانس بل میں وزیرخزانہ کی جانب سے اعلان کردہ چند ایڈجسٹمنٹس کا جائزہ لے گا تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کیا جی ایس ٹی کی شرح میں اضافے کے لیے ہنگامی اقدامات آئی ایم ایف پروگرام کے معاہدے کا حصہ ہوں گے یا نہیں ، تب کوئی امید کر سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کا فوکس ریونیو جنریشن سے اخراجات میں کمی کی طرف ہو جائے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر خزانہ نے فنانس بل میں ہر ترمیم کے محصولات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں پارلیمنٹ یا عام لوگوں کے ساتھ کوئی تفصیلات شیئر نہیں کیں، یہ ایک ایسی ناکامی ہے جسے آئی ایم ایف کی ٹیم نظر انداز نہیں کرے گی، جس کا مطلب بجٹ تجاویز میں ترامیم ہوں گی۔
محمد اورنگ زیب نے اپنی اختتامی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ اصلاحات جاری رہیں گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاحات نے عام لوگوں میں بہت غصہ پیدا کیا اور اس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب سے اشارہ ملتا ہے کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی سفارشات پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
ان اصلاحات کی جاری نوعیت کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلا ، پنشن اصلاحات ، یا ملازمین کی شراکت تمام نئی بھرتیوں کے ساتھ شروع ہوگی جس کا اثر تین سے چار دہائیوں کے بعد شروع ہوگا۔
یہ بتانا مناسب ہے کہ پنشن اصلاحات ملک کی کل لیبر فورس کے صرف 7 فیصد تک محدود ہیں جن کی تعریف ان تمام افراد کے طور پر کی گئی ہے جنہیں ٹیکس دہندگان کے خرچ پر ادائیگی کی جاتی ہے۔
دوسرا ؛ پاور سیکٹر میں اصلاحات پر توجہ دی جارہی ہے۔ (1)قابل تجدید توانائی سمیت پیداواری صلاحیت میں اضافہ، لیکن اس وقت پاکستان کی پیداواری صلاحیت طلب سے زیادہ ہے - مسئلہ وہ معاہدے ہیں جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کی چھتری کے تحت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے تھے جو حکومت کی کیپیسٹی کی ادائیگیوں کو پورا کرنے اور منافع کی واپسی میں ناکامی کا سبب بنتے ہیں اور حکومت کو قرض دہندگان کی شرائط کے مطابق ٹیرف بڑھانے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ مکمل لاگت کی وصولی حاصل کی جاسکے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین توانائی شعبے کی نااہلیوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اور (2) ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری پر توجہ انتہائی ناقص ہے اور اس میں سب سے پہلے ٹیرف پر سبسڈی میں توسیع کی پالیسی کو ترک نہیں کیا گیا ہے، جو کے الیکٹرک کیلئے اب بھی جاری ہے جس کی نجکاری 2005 میں یکساں ٹیرف کی وجہ سے کی گئی تھی۔
وزیر خزانہ نے متنبہ کیا کہ وہ تمام تاجر جو تاجر دوست اسکیم کے تحت اندراج نہیں کراتے ہیں ان سے نمٹا جائے گا (اب تک 3.2 ملین چھوٹے تاجروں میں سے ایک فیصد سے بھی کم رجسٹرڈ ہو چکے ہیں) – یہ دھمکی ان کے پیشروؤں نے دی تھی تاہم مزاحمت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جا سکا تھا اور یہ کہ نان فائلرز کی سموں کو بلاک کرنا یا ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا صرف ان سے بات چیت کرنے کے بعد ہی ہوگا - ایک ایسا اقدام جس سے بدعنوانی کے راستے کھل سکتے ہیں۔ اور اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
محمد اورنگ زیب نے سرکاری اداروں (ایس او ایز) میں اصلاحات کا بھی وعدہ کیا اور بورڈ ممبران کو تبدیل کرنے کی بات کی ۔ یہ درست نقطہ نظر پچھلی حکومتوں کے دوران واضح تھا۔ تاہم اس نے زیادہ تر ایس او ایز کے مالی حالات میں بہت کم فرق ڈالا۔
نجکاری یقینی طور پر دوسرے ممالک میں مؤثر طریقے سے شروع کی گئی ہے اور اس سے نہ صرف سرکاری خزانے پر بوجھ کم ہوا ہے بلکہ اس سے زیادہ کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ تجرباتی مطالعے کے بعد فروخت کے تمام سودے کامیاب نہیں سمجھے گئے ہیں اور ٹیرف کے تعین اور اطلاق کے موجودہ نظام کو تبدیل کیے بغیر بلینکٹ پرائیویٹائزیشن میں شامل ہونا نقصان دہ ہوگا۔
لہٰذا حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف یا کسی دوسرے قرض دہندہ کے ساتھ اس کا فائدہ اس کی اپنے اخراجات میں کمی کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے اور یہ بجٹ 25-2024 میں بالکل بھی نظر نہیں آتا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024