وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے لیے مثبت پیش رفت کر رہی ہے اور ٹیکس کی بنیاد بڑھانے، توانائی کے شعبے اور سرکاری ملکیتی اداروں(ایس او ایز) کی اصلاحات کا عہد کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے اورنگزیب نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ ملکی اصلاحات کے منصوبے پر عمل درآمد کرکے اسے پاکستان کے لیے آخری آئی ایم ایف پروگرام بنایا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکالنے کے لیے ملکی ساختی اصلاحات اہم ہیں۔
اورنگزیب نے وضاحت کی کہ حکومت کا مقصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو 13 فیصد تک بڑھانا، توانائی کے شعبے اور ایس او ایز میں اصلاحات لانا اور نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، اس کے علاوہ حکومت کے تحت چلنے والی معیشت سے مارکیٹ پر چلنے والی معیشت کی طرف بڑھنا ہے۔
بجٹ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ان پٹ کو تسلیم کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو سہ ماہی بنیادوں پر اپ ڈیٹ فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی کچھ سفارشات کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں یہ شامل ہے کہ انکم ٹیکس کے حوالے سے سم بلاکنگ اور سفری پابندی کے نفاذ سے قبل نان فائلر کو ذاتی طور پر سننے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ غیر ملکی اثاثوں کے ساتھ ساتھ زیر کفالت بیوی کے اثاثوں کے اعلان میں وضاحت شامل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ڈیفالٹ سرچارج کائی بور+3 فیصد یا 12 فیصد جو بھی زیادہ ہو شامل کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دیر سے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کے جرمانے میں اضافے کو عادتاً دیر سے فائل کرنے والوں سے منسلک کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا“اگر ٹیکس دہندہ نے پچھلے تین سالوں میں سے کسی میں بھی اپنا ٹیکس ریٹرن بروقت جمع کرایا تو ٹیکس کی شرح میں اضافے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔“
انہوں نے کہا کہ اسٹیشنری آئٹمز کے لیے ٹیکس چھوٹ برقرار رکھی گئی ہے اور سیلز ٹیکس ایکٹ کے آٹھویں شیڈول کے تحت ہیوی الیکٹرک گاڑیوں (ایچ ای ویز) پر موجودہ کم شدہ سیلز ٹیکس کی شرح کو برقرار رکھا گیا ہے۔
وزیر نے کہا کہ ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سکیم(ای ایف ایس)2021 کے تحت مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس زیرو ریٹنگ کو ختم نہیں کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی کیسز کی کمشنر اپیلٹ سے اپیلٹ ٹربیونل میں منتقلی کے لیے 15 جون سے 31 دسمبر 2024 تک کی تاریخ میں بھی توسیع کردی ہے۔
سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 25 کے مسودے میں بہتری کی تجویز کو قبول کر لیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ زراعت، صحت اور تعلیم حکومت کی ترجیحات ہیں اور حکومت نے زراعت، صحت، تعلیم اور قابل تجدید توانائی کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیراتی اور فلاحی اسپتالوں کو دی جانے والی سپلائیز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھنے اور پروفیسرز کو سیلز ٹیکس سے چھوٹ دینے کی تجویز کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایف بی آر کا کردار بہت اہم ہے اور وزیر اعظم خود ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن اور پالیسی اصلاحات کی نگرانی کریں گے۔
ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ تاجروں، ریٹیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا اور اس سلسلے میں بڑے اقدام میں نان فائلرز کے لیے سیکشن 236 جی اور سیکشن 237 ایچ کے تحت ٹیکس کی شرح میں بھاری اضافہ بھی شامل ہے۔
یہ یکم جولائی 2024 سے تمام شعبوں کے لیے لاگو ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے سرکاری اخراجات اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لائی جائے گی اور اصلاحات کے ذریعے مستقبل میں پنشن کے اخراجات کم کیے جائیں گے اور وفاقی حکومت کا حجم بھی کم کیا جائے گا اور ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی وفاقی وزارتوں کے انضمام اور ختم کرنے یا صوبوں کو منتقل کرنے کے بارے میں تفصیلی غور کے بعد تجاویز وزیراعظم کو پیش کرے گی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں ایک مالیاتی معاہدہ تجویز کیا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ ملک کے وسائل میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کے علاوہ صوبوں کو منتقل شعبوں کے اخراجات کے اشتراک پر بھی بات چیت ہوگی۔
دفاعی بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے ہمیشہ ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے اور قومی سلامتی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر مالی رکاوٹوں کے باوجود حکومت مسلح افواج کی تمام ضروریات کی فراہمی یقینی بنائے گی۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی اہم ہے اور حکومت اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی اور پالیسی ریٹ سے ملک میں صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے 81 فیصد وسائل جاری منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینا حکومت کی اہم ترجیح ہے۔
وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے افسران اور عملے کے لیے تین بنیادی اعزازیہ کا اعلان بھی کیا۔
این این آئی نے مزید رپورٹ کیا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے دکانداروں اور ریٹیلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے ایف بی آر تاجر دوست اسکیم میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے ریٹیلرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024