پاکستان کے مرکزی بینک کا خیال ہے کہ 5 سے7 فیصد کا درمیانی مدت کے افراط زر کا ہدف ستمبر 2025 تک حاصل کرلیا جائے گا ۔ جنوری 2024 کے مانیٹری پالیسی کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے پہلی بار عوامی طور پر خود کو ایک مشکل ہدف دیا ۔ ایک خاص مہینے تک افراط زر کی شرح کی حد مقرر کی اور قبل ازوقت درمیانی مدت کا ہدف مقرر کیا۔ اس کے بعد بینک نے پاکستان کی معیشت کے لیے افراط زر کی حد کے طور پر 7 فیصد کی شرح مقرر کی جس سے آگے افراط زر اور معاشی نمو کے درمیان منفی تعلق موجود ہوتا ہے اور یہ بات اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں مہنگائی کے محرکات پر خصوصی سیکشن میں بتائی جو گزشتہ ماہ اپنی دو سالہ اسٹیٹ آف دی اکانومی رپورٹ کے حصے کے طور پر شائع ہوئی تھی۔
مہنگائی سے متعلق بینک کے حالیہ اعلانات قابل تعریف ہیں کیوں کہ یہ پالیسی موقف پر رائے اور تنقید کو سننے اور تحقیق پر مبنی شواہد اور ڈیٹا کے ساتھ جواب دینے پر آمادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بینک کی پچھلی قیادت کی طرف سے نمایاں پیش رفت ہے جس نے 2023 میں اپنی لڑائی لڑنے کے لیے نجی شعبے جیسے پی بی سی اور اپٹما سے مدد حاصل کی جب کووِڈ دور کی رعایتی مالیاتی اسکیم ٹی ای آر ایف تنقید کی زد میں آئی۔
یہ کوئی معاشی تجزیہ نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ دہائی کے دوران افراط زر کے ذریعے ظاہر کی گئی شرح مبادلہ میں کمی کے لیے حساسیت کی اعلیٰ سطح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ درمیانی مدت کا ہدف ممکنہ طور پر پہنچ سے باہر ہو جائے گا اگر کرنسی کی قدر میں مزید کمی واقع ہوئی۔ خاص طور پر اگر کمی کا تناسب دہرے ہندسوں میں چلا جاتا ہے۔ اور اگر کرنسی میں اعتماد کے بحران کا بدترین دور واپس آجاتا ہے تو افراط زر کو درمیانی مدت کے ہدف تک کم کرنے کے تمام طریقے بے سود ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ بینک کا خود کیلئے افراط زر پر سخت ہدف مقرر کرنا قابل ستائش ہے لیکن درمیانی مدت کا راستہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف سمیت معاشی حکام، آئندہ مالی سال 2024-2025 میں افراط زر کی اوسط دہرے ہندسوں میں رہنے کی توقع رکھتے ہیں، مالی سال 25 کے لیے افراط زر کی پیشن گوئی کو ایک جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سخت مالیاتی استعمال کرتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ فنڈ اور ایس بی پی دونوں کو افراط زر کے محرکات پر بہتر بصریت حاصل ہے جیسے مثال کے طور پر توانائی کے نرخوں میں متوقع نظرثانی یا کرنسی کی قدر میں کمی ، مانیٹری سیٹنگز کو سخت رکھنا معنی خیز ہے ایسا نہ ہو کہ مشکل سے حاصل کیا گیا مالیاتی استحکام پھر سے تار تار ہوجائے ۔
پھر بھی یہ بات درست ثابت نہیں ہورہی۔ اگر سالانہ مہنگائی کی اوسط کہیں بھی 10 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے ، جو ماہانہ بنیادوں پر 1.15 فیصد اور اس سے اوپر ہوتی ہے ، تو اس کے بعد افراط زر درحقیقت درمیانی مدت کے ہدف کی طرف گرنا جاری رکھنے کے بجائے اگلے مالی سال کی آخری سہ ماہی میں واپس آنا شروع ہو جائے گا۔
تاہم اگر افراط زر کی شرح کو ستمبر 2025 تک 5 سے 7 فیصد کے درمیانے ہدف کے قریب کہیں بھی گرنا ہے تو ماہانہ بنیادوں پر اضافے کی رفتار کو کافی کم ہونا پڑے گا، کم از کم 0.6 فیصد ماہانہ یا اس سے کم۔ لیکن یہاں مسئلہ ہے، اگر تبدیلی کی شرح واقعی قریب کی مدت میں اس سطح تک کم ہو جاتی ہے، تو افراط زر کا ہدف بہت جلد حاصل ہو جائے گا اور ایسا ممکنہ طور پر اکتوبر 2024 تک ہوجائے گا۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں معاملات اور بھی مشکل ہو جاتے ہیں، جب سے پاکستان نے 2019 میں مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ہے، ملک میں سالانہ اوسط ماہانہ مہنگائی کی شرح 0.65 فیصد سے کم نہیں دیکھی گئی۔ درحقیقت گزشتہ 96 مہینوں میں ماہانہ مہنگائی کی شرح اوسطاً 1.08 فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ حالیہ اعداد و شمار واضح طور پر اس اوسط کو طویل کرتے ہیں لیکن جب سے کرنسی کو سہارا دینا چھوڑا گیا ہے تو پاکستان میں مہنگائی واقعی اپنا اثر کھو چکی ہے۔
اور یہ اہم نکتہ ہے: 2018-19 کے دوران پاکستان کی شرح مبادلہ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 24 فیصد کی درستگی دیکھنے میں آئی جو کہ سی پی آئی کی کمر توڑ دینے والی مثال بن گئی جس سے ماہانہ اوسط رن ریٹ 0.45 سے بڑھ کر آئندہ سال کیلئے 0.65 فیصد ہوگیا۔ ایک سال پہلے کرنسی کی قدر میں 5 فیصد کمی (اوسط) نے بھی ماہانہ مہنگائی کی شرح کو 0.22 فیصد سے 0.44 فیصد تک دگنا کر دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ معاشی حکام نے یا تو آنکھیں بند کر رکھی ہیں یا محض خود سے بے ایمانی کر رہے ہیں۔ اگر مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کو برقرار رکھنا ہے تو درمیانی مدت کے افراط زر کا ہدف اب حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کی حد کی سطح پر بحث شروع کرکے پہلا درست قدم اٹھایا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس ہدف تک پہنچنے کے لیے راستے (اور درکار اقدامات) کو ترتیب دے کر بحث کو منطقی انجام تک لے جانا چاہیے۔