گندم کی مستحکم فصل: حکمت عملیاں

05 جون 2024

پاکستان میں گندم کے حالیہ بحران کو دو بنیادی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے پنجاب حکومت نے اچانک مارکیٹ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور نجی شعبے کے لیے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش چھوڑ دی۔ دوم، درآمدی اجازتوں میں مارچ اور اپریل تک توسیع کی گئی جو گندم کی گھریلو کٹائی کے دورانیے کے موقع پر دی گئی ہے۔

پنجاب حکومت کے گندم کی منڈی سے نکلنے کے حوالے سے یہ فیصلہ اصولی طور پر درست تھا لیکن کئی وجوہات کی بنا پر اس پر عمل درآمد میں خامی تھی۔ آزاد منڈی کے ماہرین اقتصادیات نے طویل عرصے سے 3 سے 5 سال کے عرصے میں گندم کی خریداری کو بتدریج ختم کرنے پر استدلال کیا ہے اور تجویز دی ہے کہ خریداری کی کوششیں خصوصی طور پر چھوٹے کاشتکاروں پر مرکوز کی جائیں۔

ان مراحل کی سفارش گندم کی انتظامیہ کے اندر بڑے پیمانے نااہلیوں کی وجہ سے کی گئی تھی، جس میں خریداری، ذخیرہ کرنے اور ملز کو دوبارہ فروخت کرنا شامل تھا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائڈ) کے تخمینے کے مطابق گزشتہ سال کل انتظامی بوجھ تقریباً 199.75 بلین روپے تھا جس میں گودام کے کرایے کے اخراجات شامل نہیں تھے۔

مزید برآں خریداری پالیسی نے پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور نہ کاشتکاروں اور صارفین کے لیے قیمتوں کو مستحکم کیا۔ اس پالیسی کی وجہ سے قرضوں کا خاطر خواہ بوجھ پڑا۔ صرف پنجاب حکومت پر 680 ارب روپے کے قرض کا ڈھیر لگا۔

تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے خریداری کے عمل سے دستبرداری نے کسانوں کو شدید بحران میں ڈال دیا ہے۔ ایک پائیدار گندم کی منڈی کے حصول کے لیے حکومت کے منڈیوں سے نکلنے کے مضمرات کا مکمل تجزیہ اور اس کے نتائج کو کم کرنے کے لیے کلیدی حکمت عملیوں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس فیصلے کا فوری اثر آنے والے سیزن میں گندم کی کاشت میں کمی کرسکتا ہے جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوگی اور اس کے نتیجے میں درآمدات پر زیادہ انحصار ہوگا۔ یہ مسئلہ گندم کی نسبتاً کم پیداواری صلاحیت کی وجہ سے بڑھ گیا ہے جو گزشتہ سال صرف 31.5 من فی ایکڑ تھی۔ گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے 56ویں نمبر پر ہے۔ اس لیے پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانا اولین ترجیح بننا چاہیے۔

حکومت گندم کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کیلئے خریداری کے دوران بچنے والے سرمایہ استعمال کرے یعنی یہ اخراجات سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرے۔ اس میں اعلیٰ معیار کے بیجوں کی دستیابی کو یقینی بنانے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت گندم کی فصل کے لیے صرف 48 فیصد تصدیق شدہ بیج دستیاب ہے۔

حکومت کو کسانوں کی پیداواری لاگت کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ان پٹ کی قیمتیں کم رکھنے سے گندم کی کاشت کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ان پٹ کی بروقت دستیابی کو یقینی بنانے سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چھوٹے کسانوں کو نقد رقوم کی منتقلی فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر یہ رقوم فصلوں کے بجائے استعمال پر خرچ کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں کم سے کم اثر پڑتا ہے۔ اس لیے حکومت کے لیے یہ یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ ان پٹ مارکیٹ صحیح طریقے سے کام کرے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا نظام ضروری ہے۔

کے پی کے کی پنجاب سے گندم کی خریداری میں دلچسپی صحت مند مسابقت اور مارکیٹ میں استحکام کو فروغ دے سکتی تھی۔ تاہم پنجاب کے سندھ اور کے پی کے کے ساتھ اپنی سرحدوں کو سیل کرنے کے فیصلے نے اس طرح کے اقدامات کے دلائل پرسوالات اٹھائے ہیں۔

مزید برآں گندم کی بین الصوبائی تجارت بدانتظامی اور صوبوں کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کی کمی کا شکار ہے۔ کسانوں کو غیر ضروری نقصان سے بچانے اور گندم کی منڈی میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے صوبوں کو تعاون کرنا چاہیے اور معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ مل کر کام کرنے سے صوبے گندم کے ذخیرے کا مؤثر طریقے سے انتظام کر سکتے ہیں، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو روک سکتے ہیں اور بلآخر کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

فارم اور کاشت شدہ رقبے کی وجہ سے مسلسل کم ہوتی اوسط کے سبب زراعت کے بہتر فوائد حاصل کرنا مشکل ہے۔ حکومت کو گندم کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کنٹریکٹ فارمنگ یا بڑے پیمانے پر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے اور سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ روس اور یوکرین جیسے گندم کے سرکردہ برآمد کنندگان نے بھی اپنی گندم کی پیداوار کو مارکیٹ پر مبنی اصولوں کی بنیاد پر تبدیل کر دیا ہے۔

مشینری کے استعمال پر بھی سنجیدگی سے توجہ کی ضرورت ہے۔ سیکنڈ ہینڈ امپورٹڈ کمبائن ہارویسٹر ناکارہ ہیں اور اس کے نتیجے میں کٹائی کے دوران کافی نقصان ہوتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہی ہے جیسے کہ یہ بہت سے دوسرے ممالک کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ تاہم یہ مواقع بھی پیش کرتی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے کچھ بنجر علاقوں میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے گندم کی کاشت کے ممکنہ رقبے میں اضافہ کیا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے میں نسبتاً معمولی سرمایہ کاری کے ساتھ، جیسے چھوٹے ڈیموں، اور پانی کے فروغ کیلئے ٹیکنالوجیز، یہ علاقے مون سون کے کی باقیات کا استعمال کرکے گندم کی مناسب فصل حاصل کر سکتے ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کا مشورہ ہے کہ گندم کی کاشت پر توجہ دینے کے بجائے ہمیں ایسی متبادل فصلوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو زرمبادلہ کما سکیں۔ تاہم یہ تجویز نامناسب ہے۔ گندم دنیا بھر میں خوراک کی دوسری سب سے بڑی فصل ہے اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ تجارت کی جانے والی اناج ہے۔ لہٰذا صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ ایسے اقدامات پر عمل درآمد کیا جائے جو نہ صرف ہماری مقامی ضروریات پورا کریں بلکہ گندم کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کریں۔ پیداواری صلاحیت میں اضافہ یوکرین اور روس کی طرح زرمبادلہ کمانے میں ہماری بھی مدد کرسکتا ہے۔

درآمدی فیصلوں کے بارے میں، گندم کی سالانہ ضروریات کا تعین کرنے کے لیے ایک مستقل اور قابل اعتماد معیار قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال ہمارے درآمدی فیصلے پرانے طریقہ کار پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے نمایاں فرق پیدا ہوتا ہے۔

گزشتہ سال ہماری گندم کی کل سپلائی تقریباً 30.3 ایم ایم ٹی تھی۔ اس میں 28.1 ایم ایم ٹی کی کل پیداوار اور تقریباً 2.2 ایم ایم ٹی کا ذخیرہ شامل ہے۔ ایچ آئی ای ایس کے مطابق ہمارے پاس 5.7 ایم ایم ٹی کا سرپلس تھا جب کہ دیگر تخمینوں نے 2 سے 4.2 ایم ایم ٹی تک خسارے کی نشاندہی کی ہے جس کے نتیجے میں متضاد اور ممکنہ طور پر گمراہ کن فیصلے ہوئے۔ طلب کی پیش گوئی کے لیے تخمینہ کا ایک مربوط نظام اپنایا جانا چاہیے۔

اگر یہ تضادات ختم نہ کیے گئے تو مستقبل میں گندم کی پیداوار میں کوئی استحکام نہیں رہے گا اور ملک کو گندم کے ایک اور بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔

Read Comments