بھارت میں ووٹوں کی ابتدائی گنتی، مودی اتحاد کو اکثریت حاصل لیکن بھاری اکثریت سے محروم

اس وقت 400 نشستوں کے حصول سے یقینی طور پر کافی دور ہیں، بی جی پی ترجمان
اپ ڈیٹ 04 جون 2024

بھارتی ٹی وی چینلز کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا اتحاد عام انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کے ابتدائی رجحانات میں اکثریت حاصل کر رہا ہے لیکن ایگزٹ پولز میں پیش گوئی کی گئی بھاری اکثریت سے کافی پیھچے ہے۔

اس رجحان نے مالیاتی بازاروں کو خوفزدہ کر دیا تھا جس نے مودی کے لئے بھاری جیت کی توقع کی تھی ، اور اسٹاک تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوگیا۔

بلیو چپ نفٹی 50 میں 5.5 فیصد اور ایس اینڈ پی بی ایس ای سینسیکس میں 5.3 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی۔

ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بھی تیزی سے گر گیا اور بینچ مارک بانڈ کے منافع میں اضافہ ہوا۔

یکم جون کو ایگزٹ پولز کے مطابق مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک بڑی جیت درج کرائے گی، اور اس کے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے توقع کے بعد پیر کو بازاروں میں اضافہ ہوا تھا۔

لیکن آج ٹی وی چینلز نے دکھایا کہ این ڈی اے پارلیمنٹ کی 543 انتخابی نشستوں میں سے تقریباً 300 پر آگے ہے، جہاں 272 سادہ اکثریت ہے۔

راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن انڈیا اتحاد 220 سے زیادہ سیٹوں پر آگے ہے، جو کہ توقع سے زیادہ ہے۔

ٹی وی چینلز نے دکھایا کہ بی جے پی کے پاس تقریباً 240 سیٹیں ہیں جن میں این ڈی اے کو برتری حاصل ہے، جو کہ 2019 میں جیتی گئی 303 سیٹوں کے مقابلے میں کم ہے۔

بی جے پی کے لیے کم اکثریت کے ساتھ مودی کی تیسری میعاد - یا اکثریت کے لیے این ڈی اے کے اتحادیوں پر انحصار کرنا - گورننس میں کچھ غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتا ہے کیونکہ مودی نے گزشتہ دہائی میں بااختیار انداز میں حکومت کی ہے۔

تاہم، سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کے رجحانات کا درست اندازہ لگانا ابھی بہت جلد بازی ہے کیونکہ اکثریتی ووٹ کی گنتی ابھی باقی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان نالن کوہلی نے ان تخمینوں، جن میں این ڈی اے کو 400 سیٹیں ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت یہ ایک منصفانہ جائزہ ہے کہ ہم 400 نشستوں کے حصول سے دور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیکن ہمیں سیٹوں کی حتمی تعداد کے لیے انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ایگزٹ پولز بڑے پیمانے پر فتح کی بات کررہے ہیں اور فی الحال گنتی کے رجحانات اس سے میل نہیں کھاتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی-این ڈی اے حکومت بنائے گی، یہ رجحان شروع سے ہی واضح ہے۔

یکم جون کو ووٹنگ ختم ہونے کے بعد نشر ہونے والے ٹی وی ایگزٹ پولز نے مودی کی بڑی جیت کا اندازہ لگایا تھا، لیکن ایگزٹ پولز بھارت میں اکثر انتخابی نتائج کے بار میں غلط ثابت ہوئے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے تقریباً ایک ارب لوگ رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 642 ملین نے ووٹ ڈالے۔

تاہم، اگر مودی کی جیت کی تصدیق معمولی فرق سے بھی ہو جاتی ہے، تو ان کی بی جے پی نے ایک ایسی مہم جوئی میں کامیابی حاصل کی ہو گی جس میں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر مذہبی تعصب اور آبادی کے حصوں کے لیے خطرہ بننے کا الزام لگایا تھا۔

بازاروں میں کچھ گھبراہٹ

سرمایہ کاروں نے مودی کی ایک اور میعاد کے امکانات پر خوشی کا اظہار کیا تھا، یہ توقع رکھتے تھے کہ اس سے مضبوط معاشی نمو اور کاروبار کے حامی اصلاحات ہوں گی، جبکہ پارلیمنٹ میں متوقع دو تہائی اکثریت آئین میں بڑی تبدیلیوں کی اجازت دے گی۔

ممبئی میں موتی لال اوسوال فنانشل سروسز کے ریٹیل ریسرچ کے سربراہ سدھارتھا کھیمکا نے کہا، ”نفٹی میں تیزی سے گراوٹ اس وجہ سے ہے کہ نتائج، اگرچہ ابتدائی رجحانات میں، ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو ایگزٹ پولز سے بہت مختلف ہے۔“ .

انہوں نے کہا کہ یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے کچھ گھبراہٹ، کچھ تشویش ہوئی ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ ابتدائی رجحانات ہیں۔ مارکیٹ معلق پارلیمنٹ یا مخلوط حکومت نہیں چاہتی، جہاں آپ کو فیصلہ سازی میں بہت تاخیر ہو۔

سات ہفتوں پر مشتمل انتخاب جو 19 اپریل کو شروع ہوے تھے، موسم گرما کی شدید گرمی میں منعقد کیا گیا اور کچھ حصوں میں درجہ حرارت تقریباً 50 ° سیلسیس (122 ° فارن ہائیٹ) کو چھو رہا تھا۔

رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 66 فیصد سے زیادہ نکلے، جو کہ 2019 کے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں صرف ایک فیصد کم ہے، اس سے قبل از انتخاب کے خدشات دور ہوگئے کہ ووٹرز مودی کے حق میں پیشگی جیت کی وجہ سے ووٹ سے گریز کر سکتے ہیں۔

73 سالہ مودی، جو پہلی بار 2014 میں ترقی اور تبدیلی کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے تھے، ہندوستان کی آزادی کے رہنما جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تین بار جیتنے والے دوسرے وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے اپنی مہم کا آغاز اپنے ریکارڈ کو ظاہر کرتے ہوئے کیا جس میں اقتصادی ترقی، فلاحی پالیسیاں، قومی فخر، ہندو قوم پرستی اور ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذاتی وابستگی شامل ہے جسے وہ ”مودی کی گارنٹی“ کہتے ہیں۔

تاہم، انہوں نے پہلے مرحلے میں کم ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور حزب اختلاف، خاص طور پر کانگریس پارٹی، جو دو درجن گروپوں کے اتحاد کی قیادت کرتی ہے، پر ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ۔تجزیہ کاروں کے مطابق انہوں نے مہم کو تفرقہ انگیز بنا دیا ۔

Read Comments