پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے حال ہی میں کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ چین، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اپ گریڈ کرنے کا باعث بنے گا اور “عالمی برادری کو دونوں ممالک کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا مضبوط پیغام بھیجے گا۔ “
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک چین نے پاکستان میں 25.4 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے (جس میں 510 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر، 8000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار اور 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن نیٹ ورک شامل ہے) جبکہ 236,000 ملازمتیں پیدا کی ہیں۔
اگرچہ یہ دونوں ممالک کے درمیان طویل المیعاد ”آہنی دوستی“ کی عکاسی ہے، لیکن پھر بھی پاکستانی انتظامیہ کی سیاسی طور پر مشکل اصلاحات کرنے میں مسلسل غفلت اور ناکامی، خاص طور پر توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں اصلاحات اور موجودہ اخراجات میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لئے ناپسندیدگی موجود ہے، جس کے لئے وفاقی حکومت کے حجم کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی، اس صورتحال نے عالمی قرض دہندگان کے ساتھ معاملات میں ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے – چاہے وہ کثیر الجہتی ہوں یا دو طرفہ۔
2018 سے ملٹی لیٹرل(بشمول عالمی مالیاتی فنڈ) ایک شرط پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، حکومت پاکستان کو دو طرفہ قرض لینے کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کا مطلب آئی ایم ایف کے اپنی ویب سائٹ پر بیان کردہ دعوے سے دستبرداری ہے کہ ”کم آمدنی والے ممالک میں آئی ایم ایف کے قرضے عام طور پر دوسرے عطیہ دہندگان اور ترقیاتی شراکت داروں سے مالی مدد حاصل کرنے کے لئے بھی ہوتے ہیں“۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دوست ممالک، چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اس کے بدلے میں ملک کو سخت نگرانی والے آئی ایم ایف پروگرام پر رکھنے کو اپنی وعدہ کردہ امداد کے اجراء کیلئے شرط بنا دیا۔
لہٰذا نہ تو کثیر الجہتی اور نہ ہی دوست ممالک نے حکومت کے ان اصلاحات کے ارادے پر کسی حد تک اعتماد کا اظہار کیا جو عام طور پر موجودہ اشرافیہ کی گرفت کو ختم کریں گے – چاہے وہ بجٹ مختص کرنے کے معاملے میں ہو (حکومت کی طرف سے کام کرنے والی پوری لیبر فورس کا تقریبا 7 فیصد پنشن سمیت اپنے سالانہ اخراجات کا 50 فیصد سے زیادہ بجٹ کے ساتھ) یا محصولات کے ذرائع کے لئے بالواسطہ ٹیکسوں پر بھاری انحصار (جس میں آمدنی کے تمام ذرائع کا 70 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے لئے ہے جن کا اثر امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر زیادہ ہے)۔
اس تناظر میں اپنے ادوار میں بلند شرح نمو کے دعووں کے باوجود 2013-18ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور نہ ہی 2018-22ء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے انتہائی ضروری اصلاحات پر عمل درآمد کیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ہماری معیشت کی اشرافیہ کے تحفظ کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کو جاری رکھا جو متعدد ایمنسٹی اسکیموں سے ظاہر ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار نے روپے اور ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے وقت میں غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرکے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جب ملکی مارکیٹ کے مقابلے میں بیرون ملک شرح سود کم تھی، جس کی وجہ سے ملک کے موجودہ بلند قرضوں کی ادائیگی ڈالر میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے مزید قرضے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نواز شریف کی وزارت عظمیٰ (2013-17) کے دوران طے پانے والے معاہدوں کے مطابق رول اوورز اور ڈالر میں ادائیگی کے لحاظ سے چین ملک کا سب سے بڑا قرض دہندہ بن کر ابھرا ہے۔
حکومت چین کو پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کے لیے راغب کر رہی ہے تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید مستحکم کیا جا سکے جو تقریبا مکمل طور پر قرضوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ لہٰذا بجٹ پیش کرنے سے قبل وزیر اعظم کا چین کا دورہ، بجٹ جسے مبینہ طور پر 7 جون سے موخر کر دیا گیا ہے، کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
بعض رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے حال ہی میں مکمل ہونے والے اسٹینڈ بائی پروگرام کے بعد نئے پروگرام پر حکام کے ساتھ بات چیت کی ہے، انہوں نے پچھلے دو پروگراموں کی طرح اس بات پر زور دیا ہے کہ (1) حکومت چین سے نہ صرف اگلے پروگرام کی مدت (جو 3 سے 4 سال تک ہو سکتی ہے) کے لئے 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم کا رول اوور کا پختہ وعدہ چاہے گی بلکہ (ii)اپنے معاہدوں کی ذمہ داریوں کو مؤخر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ایف ڈی آئی کی تلاش کریگی جس کے لئے خودمختار گارنٹی کی ضرورت نہ ہو (جو آئی ایم ایف کے مطابق محدود رہنا چاہئے)۔
معیشت کی موجودہ صورتحال کی وجہ ناقص پالیسیاں، اشرافیہ کا وسائل پر قبضہ اور میکرو اکنامک، توانائی اور پیٹرولیم سیکٹر کیلئے مناسب پالیسیوں کا فقدان ہے۔
صرف یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اس میں تبدیلی آئے گی کیونکہ بامعنی اصلاحات کے بغیر یہ عام عوام ہی ہیں جو قیمت ادا کرتے رہیں گے اورواضح طور پران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024