ٹرانس فیٹ صحت عامہ کیلئے تباہ کن

اپ ڈیٹ 02 جون 2024

صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈز (آئی ٹی ایف ایز) جو مقامی سطح پر تمام اقسام کی خوراک میں پائے جاتے ہیں صحت عامہ کے لیے تشویشناک اور مستقبل کیلئے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ یہ دل کی بیماریوں اور دیگر دائمی بیماریوں میں قابل ذکر اضافے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ ان کے نقصان دہ اجزاء بنیادی طور پر سبزیوں کے تیلوں کو ہائیڈرو جنیٹ کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔

غیر متعدی بیماریوں کے خلاف پاکستان کی جاری لڑائی میں مجرم اکثر نظر نہیں آتا تاہم ہماری میزوں پر سجنے والی روز مرہ غذاؤں میں موجود ہوتا ہے۔ اس واضح اور مسلسل خطرے کے باوجود ٹرانس فیٹ سے پاک پاکستان کے مستقبل کے راستے میں روک تھام اور انتہائی عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اس طرح عوامی تعلیم اور بڑے پیمانے پر آگہی پیدا کرنے کی کی ہنگامی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

اس عنوان کے تحت بحث ، جس میں حکومت، تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے ماہرین شامل رہے ہیں، نے چیلنجوں کا ایک جامع جائزہ اور آئی ٹی ایف ایز کی کھپت کو کم کرنے کا راستہ فراہم کیا۔ جب کہ پیشرفت ہوئی ہے، نتائج بتاتے ہیں کہ صحت عامہ کی اس ہنگامی صورتحال کو موڑنے کے لیے ایک تیز اور مربوط ردعمل ضروری ہے۔

اس مسئلے کی شدت ایک تلخ حقیقت ہے: آئی ٹی ایف ایز کا استعمال محض صحت کی تشویش نہیں ہے۔ یہ ان بڑے سماجی، اقتصادی اور پالیسی سازی کے چیلنجوں کی عکاسی کرتا ہے جن کا پاکستان اس وقت سامنا کر رہا ہے۔ جب کہ ملک آئی ٹی ایف ایز کی فی کس کی کھپت خطرناک حد تک زیادہ ہے، لیکن بھکرے ضابطوں، معاشی مجبوریوں اور عوامی بیداری نہ ہونا تبدیلی میں رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں آئی ٹی ایف اے کا بیانیہ دو گنا ہے۔ ایک طرف پیچیدہ سائنس اور سنگین اعداد وشمار تبدیلی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف پالیسی پر سست رفتار عمل درآمد ، مسابقتی صنعتی مفادات، اور عوام کی جڑی ہوئی غذائی عادات اس میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

ہمیں جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہ نہ صرف پالیسی میں تبدیلی ہے بلکہ ایک ثقافتی تبدیلی بھی ہے جو اس بات کو تسلیم کرنے سے شروع ہوتی ہے کہ ہمارے روایتی کھانے کے طریقوں کو صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ اس تبدیلی میں نہ صرف حکومتی اور صنعتی کوششیں شامل ہوں گی بلکہ صحت مند غذا کے طریقوں کو سماجی طور پر قبول کیا جائے گا۔ اس میں آئی ٹی ایف اے کے اطراف کی خرافات کو دور کرنا شامل ہے، جیسا کہ یہ تصور کہ بناسپتی گھی ایک گھریلو غذا اور نقصان نہ دینے والا جزو ہے تاہم حقیقت میں یہ آئی ٹی ایف اے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

اس کا حل کئی سطحوں پر مشتمل ہے۔ عوام کو آئی ٹی ایف اے کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے اسکول کے نصاب سے لے کر سوشل میڈیا مواد تک ہمارے اختیار میں ہر ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم کو ہماری حکمت عملی کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ یہاں میڈیا ایک اتحادی ہو سکتا ہے جو اس پیغام کو فروغ دے کہ ٹرانس فیٹ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

فوڈ انڈسٹری کو بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ اگرچہ ورچوئل ٹرانس فیٹ فری (وی ٹی ایف ) ٹیکنالوجی کا نفاذ قابل تعریف ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اسے ایک بڑی تحریک کا حصہ بننے کی ضرورت ہے جس میں فوڈ پروسیسنگ کے طریقوں کا از سر نو جائزہ لینا، اجزاء کی سورسنگ، اور بلآخر مصنوعات کی بہتری شامل ہے۔

پالیسی کی سطح پر ضابطوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کی سفارشات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے موجودہ معیارات درست سمت میں ایک قدم ہیں لیکن اس کا نفاذ ایک چیلنج ہے۔ پالیسی کے اطلاق میں علاقائی فرق کو ایک متفقہ قومی حکمت عملی کے ذریعے دور کیا جانا چاہیے جو مستقل مزاجی کو یقینی بنائے۔

لیکن، شاید سب سے زیادہ تنقیدی طور پر، ریگولیٹری سختی اور معاشی قوت کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ کھانے کی صنعت سے وابستہ افراد کی روزی روٹی کو خطرہ بنانے والے سخت اقدامات کا جواب نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ایسی سمارٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے جو صنعت کو اختراعات کی ترغیب دیں اور سبسڈیز یا ٹیکس میں چھوٹ دیں جو تبدیلی کو مالی طور پر بھی قابل عمل بنائیں۔

جیسا کہ ہم اس مقصد کے لیے جدو جہد کرتے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ٹرانس فیٹس کے خلاف جنگ تنہائی کی جنگ نہیں ہے بلکہ ایک صحت مند، زیادہ پائیدار مستقبل کی طرف ایک اجتماعی سفر ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس کا آغاز ہمیں عزم کے ساتھ کرنا چاہئے، یہ جانتے ہوئے کہ راستہ طویل ہے لیکن یہ کوششیں صحت مند زندگی کیلئے اہمیت کی حامل ہیں اور اس کے نتائج طویل اور پائیدار ہیں۔

ہم اس کوشش میں اکیلے نہیں ہیں۔ ڈنمارک، سنگاپور، اور کینیڈا جیسے ممالک نے ٹرانس فیٹ پر سخت ضابطوں کو کامیابی سے نافذ کیا ہے، صحت عامہ کے نتائج کو ڈرامائی طور پر بہتر بنایا ہے اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے عالمی معیار قائم کیا ہے۔

ان کے نقش قدم پر چل کر پاکستان نہ صرف اپنے عوام کا تحفظ کر سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے پڑوسی ممالک کے لیے بھی ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔ یہ ہمارا لمحہ ہے کہ ہم فیصلہ کن طور پر کام کریں، اپنے شہریوں کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہوئے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک متحرک مستقبل کو یقینی بنائیں۔

Read Comments