چیئرمین واپڈا کے قریبی ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف 4500 میگاواٹ کے دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے (ڈی بی ڈی پی) کے بجلی کی پیداواری جز میں چینی سرمایہ کاری کی کوشش کریں گے کیونکہ بین الاقوامی سرمائے اور مالیاتی مارکیٹ سے قرض لینے کی صلاحیت خودمختار کریڈٹ ریٹنگ اور معاشی کمزوریوں کی وجہ سے محدود ہے۔
تفصیلات بتاتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ دیامیر بھاشا ڈیم ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے جس کی بجلی کی صلاحیت 4500 میگاواٹ ہے، جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس منصوبے سے سالانہ 18.1 ارب یونٹ (موجودہ ڈاؤن اسٹریم منصوبوں میں اضافی 2.5 ارب یونٹ) پیدا ہوں گے۔ یہ توانائی کے شعبے کی افادیت کو بحال کرنے اور موجودہ توانائی مکس میں کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لئے ایک اہم منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ پانی ذخیرہ کرنے کی بڑی صلاحیت کی وجہ سے کثیر الجہتی فوائد کا حامل ہے جو پاکستان کے پانی کی قلت کے مسائل کو کم کرسکتا ہے اور سندھ کے میدانی علاقوں کے لئے پانی کی فراہمی کو بڑھانے اور پاکستان کی فوڈ سیکورٹی کی حفاظت کرنے میں مدد کرسکتا ہے ، جبکہ متعلقہ صنعتوں اور دیگر شعبوں کی ترقی اور پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔
پورے پروجیکٹ میں تین اجزاء شامل ہیں جن میں ڈیم، بجلی کی پیداوار اور ایل اے اینڈ آر (حصول اراضی اور دوبارہ آبادکاری) شامل ہیں۔ ڈیم کے حصے کے لئے پی سی ون نومبر 2018 میں ایکنک نے منظور کیا تھا اور اب یہ عمل درآمد کے مرحلے میں ہے ، جبکہ ایل اے اینڈ آر کے لئے دوسرا نظر ثانی شدہ پی سی ون اپریل 2021 میں 175 ارب روپے کی لاگت سے منظور کیا گیا تھا۔ ایکنک نے اپریل 2023 میں بجلی کی پیداواری سہولیات کے لئے پی سی ون کی منظوری دی تھی جس پر مجموعی طور پر 1.424.36 ٹریلین روپے لاگت آئے گی۔
منصوبے کی بروقت تکمیل کے لئے ایک بڑا چیلنج فنانسنگ لاگت ہے اور اینکر فنانسر کی تلاش کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ای اے ڈی کے تعاون سے واپڈا نے ایس ایف ڈی، آئی ایس ڈی بی، اے ڈی بی اور اے آئی آئی بی سمیت مختلف کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں (ایم ڈی بیز) سے رابطہ کیا ہے لیکن ابتک کسی پیش رفت کا انتظار ہے۔
منصوبے کی مجموعی زرمبادلہ کی ضروریات 4.0 ارب ڈالر ہیں جس میں سے واپڈا نے ابتدائی زرمبادلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گرین یورو بانڈ کے اجراء کے ذریعے 500 ملین ڈالر جمع کیے ہیں۔ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) انجینئر سجاد غنی نے متعلقہ حلقوں کے ساتھ اپنے رابطے میں کہا کہ بین الاقوامی سرمائے اور مالیاتی مارکیٹ سے قرض لینے کی صلاحیت خودمختار کریڈٹ ریٹنگ اور بڑھتی ہوئی بیرونی مالیاتی ضروریات کی وجہ سے درپیش چیلنجز کے درمیان معاشی کمزوریوں کی وجہ سے محدود ہے۔
مزید برآں، واپڈا مندرجہ ذیل دو آپشنز کے ذریعے دیامیر بھاشا ڈیم کی فنانسنگ کی راہیں تلاش کر رہا ہے:
(i) غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں واپڈا ایکویٹی شیئر ہولڈنگ کی جزوی تقسیم۔ اس معاملے میں حکومت پاکستان اور کویت انویسٹمنٹ اتھارٹی (کے آئی اے) کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے گئے تھے تاکہ کے آئی اے کے ماتحت ادارے اینرٹیک کے ذریعے اس عمل کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ واپڈا سیل سائیڈ ٹرانزیکشن ایڈوائزر کی خدمات حاصل کرنے کے عمل میں ہے اور ان کی آن بورڈنگ کے بعد اینرٹیک کے ساتھ رابطے کا آغاز کرے گا۔ اور (ii) سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری / قرضوں کا معاہدہ جس میں واپڈا اپنی آمدنی کا ایک حصہ اس مقصد کے لئے بنائی گئی فنانسنگ وہیکل کیلئے مختص کرے گا جو غیر ملکی سرمایہ کار کو ادا کیا جائے گا اور لازمی طور پر متوقع ریٹرن آن ایکویٹی (آر او ای) کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کی واپسی کا احاطہ کرے گا۔ قرض کا حصہ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ (ایس ایف ڈی) کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے۔
چین کے دورے کی تیاریوں کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے ہدایت کی کہ دیامر بھاشا ڈیم منصوبے (ڈی بی ڈی پی) کو سی پیک پورٹ فولیو میں شامل کرنے پر غور کیا جائے۔
اس سلسلے میں واپڈا نے سفارش کی ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے ’پاور جنریشن کمپوننٹ‘ کو چینی حکومت کے سامنے ایک بڑے منصوبے کے طور پر پیش کیا جائے اور اس دورے کے دوران ’پاور جنریشن کمپونینٹ کی فزیبلٹی اسٹڈی کے جائزے کے لیے فریم ورک معاہدے‘ پر اتفاق کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ واپڈا نے 13 جوائنٹ ٹاسک کوآپریشن کمیٹی میں اپنی تجویز پر غور کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی زیر صدارت 21 مئی 2024 کو ہونے والے کمیٹی کے تیاری کے اجلاس میں اس پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024