باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزارت خزانہ نے پاور ڈویژن کے 1.250 ٹریلین روپے کے مطالبے کے مقابلے میں مالی سال 2024-25 کے لئے بجلی کے شعبے کے لئے 1.094 ٹریلین روپے کی سبسڈی دینے پر اتفاق کیا ہے۔
اس میں سے 174 ارب روپے اگلے مالی سال کے لیے کے الیکٹرک کے لیے مختص کیے جائیں گے تاہم نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی منظوری کے بعد بقیہ مختص رقم کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ حکومت نے 24-2023 میں بجلی کے شعبے کے لیے 970 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی تھی۔
ذرائع کے مطابق اسٹیک ہولڈرز بجلی کے نرخوں کی ری بیسنگ کے مجوزہ اثرات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی تاکہ بجٹ دستاویزات میں مختلف حصوں کے لیے مختص رقم کو شامل کیا جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مئی اور جون میں ٹیرف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی تاہم آئندہ مالی سال سے ری بیسنگ کے ساتھ ٹیرف میں 5 روپے فی یونٹ تک اضافہ ہوگا۔ تاہم، اضافے کے اثرات ایف ٹی اے اور کیو ٹی اے کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے.
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن اور نیپرا حکام ری بیسنگ کے اعداد و شمار کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں، پاور ڈویژن نہیں چاہتا کہ سبسڈی کی رقم اس سطح تک مختص کی جائے جس سے گردشی قرضوں میں مزید اضافہ ہو۔
اس وقت گردشی قرضوں کا ذخیرہ تقریبا 2.6 ٹریلین روپے ہے جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں منظور کردہ تقریبا 125 ارب روپے کی سبسڈی کے اجراء کے بعد کسی حد تک کمی متوقع ہے جو وزیراعظم کے 5 جون 2024 کو طے شدہ دورہ چین سے قبل چینی آئی پی پیز کو ادا کی جائے گی۔
تاہم پہلی مرتبہ پاور ڈویژن نے اعتراف کیا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک سے وعدے کے باوجود گردشی قرضوں کا اسٹاک 2.350 ٹریلین روپے پر روک نہیں کر سکے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ادائیگی کرنے والے صارفین یعنی گھریلو اور صنعت کی جانب سے سولرائزیشن میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ سے پاور ڈویژن پریشان ہے جس کی وجہ سے ڈسکوز کی فروخت میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت 2.350 ٹریلین روپے کے گردشی قرضوں کے اسٹاک کا ہدف پورا کرنے سے قاصر ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف ریونیو پر زیادہ ٹیرف کا اثر ہے تو دوسری جانب سولرائزیشن نے مالی سال 2023-24 کے تمام مفروضوں کو تباہ کردیا ہے، پاور سیکٹر کے 25 سے 30 فیصد پورٹ فولیو میں خلل پڑا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جون 2023 میں 963 میگاواٹ کے مقابلے میں 30 اپریل 2024 تک سولرائزیشن 2036 میگاواٹ تک پہنچ گئی جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 1073 میگاواٹ کا سولر سسٹم نصب کیا گیا ہے۔
سولرائزیشن کا موجودہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں ہر ماہ ایک آئی پی پی (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر) نصب کیا جاتا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاور پلانٹس سے پیداوار کون استعمال کرے گا؟
ایک سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار میں کوئی کمی نہیں تاہم ڈسکوز اپنی آمدنی کے مطابق لوڈ شیڈنگ کے منصوبوں پر عملدرآمد کر رہی ہیں۔ پاور ڈویژن نے ڈسکوز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک بھر میں شدید گرمی میں صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کے شیڈول میں نرمی کریں۔
جنریشن پلان کے حوالے سے بھی حکومت کو کیچ 22 کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف برف کے جلد پگھلنے کی وجہ سے ہائیڈل ذرائع سے پیداوار میں اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف اسے لازمی طور پر پلانٹس چلانے پڑتے ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024