گرڈ بجلی کا ٹیرف بڑھنے اور سولر پلیٹس کے ساتھ ساتھ آلات کی گرتی ہوئی قیمتوں کی بدولت چھتوں پر سولر پینل کی تنصیبات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک اچھا مسئلہ ہے جسے غیر ضروری تنازعات پیدا کیے بغیر خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہیے۔
پچھلی دہائی میں، عالمی سطح پر، بہت سے ممالک نے مراعات اور سبسڈی کی پیشکش کر کے شمسی توانائی کے حصول پر زور دیا۔ تاہم سولر انرجی میں تیزی سے اضافے سے سپلائی اور دیگر اخراجات بڑھنے کے سبب اضافی لاگت کیلئے گرڈ کو مزید فنڈنگ بڑھنے کے نتیجے میں اب یہ ممالک مذکورہ پالیسیاں واپس لے رہے ہیں اور نئی حکمت عملی وضع کررہے ہیں۔(انفوگرافک میں کچھ مثالیں)۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے آئیے صورتحال کا جائزہ لیں۔ اس وقت تقریباً 113,000 نیٹ میٹرنگ لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں جن کی صلاحیت 1,550 میگاواٹ ہے۔ ان میں رہائشی، تجارتی اور صنعتی شامل ہیں، اور ایک اندازہ یہ ہے کہ اس سپلائی کا 60 فیصد رہائشی شعبے سے فراہم کیا جارہا ہے۔
صنعتی صارفین کی جانب سے گرڈ کی طرف کوئی سپلائی نہیں جبکہ کمرشل کا حصہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ وہ اپنے استعمال کی مناسبت سے پیدوار کررہے ہیں تاہم رہائشی علاقوں کا معاملہ مختلف ہے جہاں طلب عام طور پر شام اور رات کے وقت ہوتی ہے جبکہ شمسی توانائی کی فراہمی دن کے وقت ہوتی ہے۔ اور گرڈ میں رہائشی شعبے کا حصہ کسی بھی طرح سے تشویشناک نہیں ہے۔
ونڈ اور سولر انجری کی سپلائی کی مجموعی صلاحیت 4.5 فیصد ہے (لوڈ 3 فیصد ہے)۔ اس شرح پر، قابل تجدید توانائی کے بوجھ کے انتظام کے لیے گرڈ کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والی ایک تحقیق کے مطابق، جو بجلی کی وزارت کے پاس ہے، جب تک قابل تجدید توانائی کے ذریعے سپلائی 10 فیصد تک نہ پہنچ جائے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کوئی بامعنی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے اور 15 فیصد پر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو سسٹم کو 20-25 فیصد صلاحیت کو جذب کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ یہاں تک کہ سولرائزیشن کی تیز رفتاری سے بھی، سولر اور ونڈ انرجی کی مشترکہ صلاحیت سے 10 فیصد تک پہنچنے میں مزید 3-4 سال لگیں گے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یوٹیلیٹی کمپنیاں آرام کریں اور بحران کے آنے کا انتظار کریں۔ انہیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر توانائی کے مختلف بوجھ کو اٹھانے کے لیے آج ہی سے سرمایہ کاری اور پالیسی کی سطح پر منصوبہ بندی شروع کرنی چاہیے۔ جو کے الیکٹرک کر رہا ہے۔ مطلوبہ منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے باقی کی نجکاری کی جائے۔
چینی وینڈرز کے مطابق، مالی سال 24 میں پاکستان میں چین سے سولر پینل کی درآمدات (مقدار میں) 10,000-11,000 میگاواٹ رہیں گی۔ اس میں سے تقریباً 4,000-5,000 میگاواٹ ایران اور افغانستان کو اسمگل کی جارہی ہے۔ سولر پینل کی درآمد ڈیوٹی فری ہے۔ تاجر چین سے درآمد کرتے ہیں اور پھر اسے جزوی طور پر باہر اسمگل کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ دوسروں کی طلب پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں بدنام زمانہ نیلے ٹرک (زمباد) ہیں جو ایران سے پاکستان ڈیزل اسمگل کرتے ہیں اور واپسی پر سولر پینل لے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود پاکستان میں اس سال تقریباً 6000 میگاواٹ کے سولر پینلز درآمد اور استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ نصب کیے جانے والے تمام سولر نیٹ میٹرنگ میں استعمال نہیں ہوتے ہیں۔ بہت سے صنعتی شعبے نیٹ میٹرنگ کے لیے درخواست نہیں دیتے ہیں، کیونکہ وہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی خود استعمال کررہے ہیں۔ پھر چھوٹے گھرانے بھی اس سے پیدا کردہ بجلی براہ راست استعمال کررہے ہیں۔
نیٹ میٹرنگ کو بڑھنا چاہیے۔ کل 33 ملین بجلی کے کنکشن ہیں - اس کے اندر ایک لاکھ 13 ہزار سولر نیٹ میٹرنگ پر ہیں۔ یہ تعداد ہر سال دوگنی ہو رہی ہے، اور حکومت کو توقع ہے کہ چار سالوں میں یہ صلاحیت موجودہ 1,550 میگاواٹ سے بڑھ کر 7,000 میگاواٹ ہو جائے گی۔ اس سے انہیں پریشانی ہوتی ہے۔
جب نیٹ میٹرنگ شروع ہوئی تھی تو اس وقت سولر پینل کی تنصیب پر ادائیگی کی مدت 10 سے 12 سال ہوتی تھی۔ اسے آگے بڑھانے کیلئے اسٹیٹ بینک نے سبسڈی والے قرضوں کی پیشکش کی۔ اب سبسڈی ختم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی، ادائیگی ڈیڑھ سے 2 سال تک کم ہوگئی ہے۔ ادائیگیوں کے سبب چھتوں پر سولر پینلز کی بھر مار ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ کی شرح کو تبدیل کر سکتی ہے یا سولر پینل میں میں تیزی سے اضافے پر سمجھوتہ کیے بغیر نیٹ میٹرنگ کی طرف جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی کے تیز تر عمل کو سست کرسکتی ہے۔
حکومت کو پہلے سے دیے گئے نیٹ میٹرنگ کنٹریکٹس کو تبدیل کرنے میں قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سولر پینل سے گرڈ کو سپلائی کا معاملہ اب تک اس خطرناک مرحلے سے دور ہے جہاں اہم سرمایہ کاری کی ضمانت دی جاتی ہے تاہم سولرائزیشن کی رفتار کو کم کیا جانا چاہئے اور یہ نئے کنکشن کے معاہدے کو دوبارہ ڈیزائن کرکے کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ نیٹ میٹرنگ کے تحت خدمات جاری رکھیں جب تک کہ وہ 5 سے 6 سالوں میں سال ختم نہ ہوجائیں۔
یہ کہتے ہوئے کہ ایک توازن کی ضرورت ہے. اگر حکومت نئے اور موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین کو جامع ترغیب دے تو لوگ شام کے وقت استعمال کے لیے دن میں پیدا ہونے والے توانائی کو ذخیرہ کرکے ہائبرڈ حل کی طرف بڑھنا شروع کر سکتے ہیں، اور گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل میں تبدیل کر کے گھر پر چارج کر سکتے ہیں۔
آج ریاضی کام نہیں آرہی کیونکہ بیٹری کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ لیتھیم آئن بیٹری کی سب سے بڑی چینی پروڈیوسر (سی اے ٹی ایل) کا دعویٰ ہے کہ تین سالوں میں بیٹری کی قیمتیں آدھی رہ جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب آف گرڈ حل کی ادائیگی کی مدت 2-3 سال بن جائے گی۔ کچھ تاجروں کو اس کی بو آ رہی ہے اور وہ پاکستان میں بیٹری بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
حکومت کی بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے کاروبار پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے سولر انرجی کے بہاؤ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے متوازن پالیسی ہونی چاہئے۔