میاں منشا کی ملکیت نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ (این سی پی ایل) نے پاور ڈویژن سے 8 ارب 35 کروڑ روپے کی رکی ہوئی رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاور کمپنی کے مالکان/ انتظامیہ اور عہدیداروں کے خلاف تحقیقات ختم کردی ہیں۔
این سی پی ایل کی جانب سے سیکریٹری پاور کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس وقت نیب کی جاری تحقیقات کی بنیاد پر پاور پرچیزر یعنی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) کی جانب سے مجموعی طور پر 8 ارب 35 کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی اور 11 فروری 2021 کے ماسٹر ایگریمنٹ میں طے شدہ ادائیگی کے طریقہ کار کے مطابق کمپنی کو ادائیگی نہیں کی گئی۔ .
مذکورہ مقاصد کے لئے کمپنی سے 15 نومبر 2021 کو ایک حلف نامہ بھی حاصل کیا گیا تھا۔
این سی پی ایل کے مطابق نیب نے کمپنی کے مالکان اور انتظامیہ کے خلاف تحقیقات ختم کر دی ہیں جیسا کہ نیب کے خط کے ذریعے بتایا گیا ہے، مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ نیب کی تحقیقات اب ختم کردی گئی ہیں، لہذا پاور پرچیزر / سی پی پی اے-جی کمپنی کو مجموعی طور پر 8.36 ارب روپے کی روکی گئی رقم ادا کرے اور حلف نامہ واپس کرے، کیونکہ یہ غیر موثر ہو چکا ہے۔
مزید برآں، پاور کمپنی نے نوٹ کیا کہ 13 نومبر، 2007 (پی پی اے) کے پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) کے تحت بروقت ادائیگی کرنے کی بجلی کی خریداری کی ذمہ داری کے مطابق، غیر متنازعہ اور واجب الادا رقم کو روکا یا کاٹا نہیں جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ پاور پالیسی 2002 کے تحت باقی آئی پی پیز جن کے ساتھ پاور پرچیزر کی جانب سے ادائیگی کا طریقہ کار نافذ کیا گیا تھا انہیں مکمل ادائیگی کی جاتی ہے۔ نیب کی کارروائی ختم ہونے کے بعد بھی پاور پرچیزر کی جانب سے روکی گئی رقم کو مسلسل روکنا پی پی اے کی شرائط کے منافی ہے اور یہ امتیازی کارروائی ہے۔
پاور کمپنی نے سیکرٹری پاور کو یاد دلایا کہ یہ ایک قانون ہے کہ ایک سرکاری محکمہ، اتھارٹی/ایجنسی کو ہمیشہ اپنے طرز عمل اور عزم میں ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
نیب کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ این سی پی ایل کے مالکان/انتظامیہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے افسران/اہلکاروں اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے افسران/اہلکاروں اور دیگر کے خلاف این اے او 1999 کی دفعات کے تحت درج ذیل الزامات کی بنیاد پر تحقیقات کی گئیں کہ “این سی پی ایل کے مالکان/ انتظامیہ نے ٹیرف کے تعین کے وقت بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے جعلی مالی / تکنیکی معلومات پیش کیں اور بجلی کے زیادہ نرخ حاصل کیے۔ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر۔ نیپرا اتھارٹی اور سی پی پی اے-جی کے ممبران اور دیگر افسران نے میسرز این سی پی ایل کے مالکان/ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت سے پاور کمپنی کے لئے زیادہ ٹیرف کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے یں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کیس کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجاز اتھارٹی نے نیب کی جانب سے این اے اے کی دفعہ 31 بی (1) کے تحت تحقیقات ختم کرنے اور وزارت توانائی کو بھیجنے کی منظوری دی ہے۔
نیب کا مؤقف تھا کہ تحقیقات ختم کرنے کا تعلق صرف الزامات سے ہے۔ تاہم، یہ کسی بھی دوسرے کیس کو متاثر نہیں کرے گا، اگر وہ پہلے سے ہی زیر تفتیش ہے اور این اے او، 1999 کے تحت کوئی نیا کیس شروع کرنے سے نہیں روکا جائے گا.
دیگر کے علاوہ نیب نے اپنے خط کی کاپیاں نیب اور سی پی پی اے-جی، سعید الظفر، عبدالرحیم خان، ظفر علی خان اور سید انصاف احمد کو بھی ارسال کی ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024