عام ملک کو آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں لیکن…’

25 مئ 2024

برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کے چیف اکانومسٹ پروفیسر عدنان خان نے پاکستانی میڈیا کو ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ایک عام ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کی ضرورت نہیں ہے لیکن پاکستان کے اگلے چند سال اس کی مدد کے بغیر مشکل نظر آتے ہیں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ملک کی معاشی ضروریات عالمی قرض دہندہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے کسی بھی بیل آؤٹ پیکج کے ممکنہ حجم سے کہیں زیادہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا ٹیکس نظام غیر منصفانہ ہے کیونکہ غریب ترین 10 فیصد شہری اپنی آمدنی کا بڑا حصہ امیر ترین 10 فیصد کے مقابلے میں ٹیکسوں میں ادا کر رہے ہیں اور پاکستان کو صرف برآمدات سے متعلق شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا انتخاب کرنا چاہئے اور بجلی کے شعبے میں کسی بھی سرمایہ کاری کو روکنا چاہئے۔

پاکستان کی 75 سالہ مختصر تاریخ میں آئی ایم ایف کا 24 واں پروگرام ایک ایسی حقیقت ہے جو شاید ملک کو عام ملک نہیں قرار دیتی ہے۔

پروفیسر عدنان خان نے دیگر معروف ماہرین اقتصادیات اور عالمی قرض دہندگان خاص طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات کی شدت سے اتفاق کیا۔

آئی ایم ایف کا نیا پروگرام جو 75 ارب ڈالر کی ضرورت کے مقابلے میں تین سال میں 6 ارب ڈالر کی پیشکش کر سکتا ہے، قوم کیلئے ناکافی ہے ۔سپلائی اور ڈیمانڈ میپنگ اور صارفین پر اس کے لاگت کے اثرات پر غور کیے بغیر بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری لاپرواہی سے کی گئی۔ آج ملک میں 46 ہزار میگاواٹ بجلی کی تنصیب کی گئی ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ بے کار ہیں کیونکہ کوئی لینے والا ہی نہیں ہے۔

جیسے جیسے پاکستان اور آئی ایم ایف کے حکام کے درمیان بات چیت بڑے پیکج کے لیے آگے بڑھ رہی ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے احکامات اور خدشات کی خبریں قومی میڈیا میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔

آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آنے والے سیاسی اور سماجی خدشات پر شدید تحفظات اہم ہیں جو پاکستان کی قرض کی ادائیگی کی صلاحیت کو کمزور کر سکتے ہیں۔

آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مالی اور بیرونی کمزوریاں بہت زیادہ ہیں جن میں قرضوں کی پائیداری اور ری فنانسنگ کے خطرات بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی عملداری کی بحالی پاکستان کی فنڈ کی ادائیگی کی صلاحیت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے اور مضبوط پالیسی پر عمل درآمد پر منحصر ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کو قرضوں کے ارتکاز، ادائیگی کی صلاحیت، ساکھ اور مصروفیت، سماجی و سیاسی تناؤ اور سیکیورٹی کی صورتحال سے متعلق خطرات کا بھی سامنا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ قرضوں کی ادائیگی کی مجموعی ذمہ داریاں کافی حد تک برقرار ہیں اور شرح مبادلہ کی ناکافی لچک اور درآمدی پابندیوں کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کے عدم توازن کو بیرونی توازن تک پہنچنے کیلئے اضافی پالیسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں ہفتے کہا تھا کہ حکومت نے کچھ اصلاحات پر عمل درآمد میں تاخیر کی ہے، پیچیدہ سیاسی منظر نامے کی وجہ سےبڑھتی سیاسی غیر یقینی صورتحال اور سماجی تناؤ معاشی استحکام کی پالیسیوں پر عمل درآمد کو متاثر کر سکتا ہے۔

مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے سیاسی بے یقینی اور سماجی تناؤ پر تشویش کا اظہار بھی متعدد مواقع پر کیا گیا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال سے نکلنے والی بری خبر ان اہم عوامل میں سے ایک ہے جو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور رکھے ہوئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک اور چین کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی یہ بات درست ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سرمایہ کاری سے متعلق متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ملک کو معاشی استحکام اور مالی استحکام کی طرف بڑھنے کے لئے سیاسی استحکام اور سماجی ہم آہنگی کے بارے میں بہت سی اچھی خبروں کی ضرورت ہے۔

اگرچہ، آئی ایم ایف نے عوامی طور پر بہت سے اہم معاملات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ کیا فنڈ کا مطلب واقعی کاروبار ہے اور اس کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لئے کافی مضبوط ہے. شاید نہیں! آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہ کرنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

آئی ایم ایف کئی سالوں سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ گردشی قرضوں کو زیادہ اسٹریٹجک بنیادوں پر منظم کیا جا سکے۔ نئے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے مطابق بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے کو 2.31 ٹریلین روپے سے کم کرنے میں ناکام رہی اور رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ کے دوران قرضے 325 ارب روپے بڑھ کر 2.64 ٹریلین روپے تک جاپہنچے۔

بجلی کی قیمتوں میں متعدد بار اضافے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے کئی دور کے باوجود گردشی قرضوں میں مسلسل اضافے سے ظاہرہوتا ہے کہ حکام نے ابھی تک اصل مسائل کو حل کرنا شروع نہیں کیا – ناقص وصولیاں، بڑے پیمانے پر چوری، نظام کے نقصانات، پیداواری لاگت وغیرہ - جو بجلی کے شعبے کو تنزلی کی جانب دھکیل رہی ہیں ۔ قرضوں میں اضافے نے حکومت کو آئی ایم ایف سے جولائی سے بیس ٹیرف میں 5 سے 7 روپے فی یونٹ اضافے کا وعدہ کرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ آئندہ مالی سال گردشی قرضوں میں اضافے کو روکا جاسکے۔

بجلی کے شعبے میں کوئی اصلاحات شروع نہیں کی گئیں۔ بجلی کے شعبے کو درپیش گردشی قرضوں سے نمٹنے کے لئے صارفین سے مکمل لاگت کی وصولی کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے ذریعے گردشی قرضوں کے انتظام کا نسخہ، جس کی حکومت نے توثیق کی ہے، خطرے کے زون میں جا رہا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کے نرخوں میں اضافے پر حالیہ پرتشدد احتجاج اور حکومت کا عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ ٹیرف میں اضافے کا نسخہ اب ہضم نہیں ہورہا کیونکہ عام لوگوں کی آمدنی اب ان کی انتہائی ضروری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی کافی نہیں ہے۔ کم از کم کہنے کے لئے یہ نسخہ پرانا لگتا ہے۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ جمعہ کو پاکستان سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر 163 ارب روپے سے 183 ارب روپے کے اخراجات کم کرے کیونکہ وہ ریونیو میں نمایاں کمی کے باوجود رواں سال پرائمری بجٹ سرپلس کے حصول کے ہدف پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس بات کا امکان کم ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کوئی ٹھوس کٹوتی کرے گی۔ اخراجات کے حوالے سے لاپرواہی برقرار رہے گی کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اخراجات میں کمی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی عزم ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان سے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے اور جون سے نصف سال کی بنیاد پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم دونوں پر عمل درآمد سوالیہ نشان ہے.

Read Comments