پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) یعنی ادارہ شماریات نے تیسری سہ ماہی میں 2.09 فیصد کی بنیاد پر موجودہ سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 2.38 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ۔ جولائی تا ستمبر نظر ثانی تخمینہ شدہ 2.71 فیصد (اصل تخمینہ 2.5 فیصد کے برخلاف) اور دوسری سہ ماہی میں نظر ثانی شدہ 1.79 فیصد (1 فیصد کے تخمینہ کے خلاف) لگایا گیا ہے۔
اصل (نظرثانی شدہ نہیں) تخمینوں پر مبنی تین سہ ماہیوں کی اوسط نو ماہ کی شرح نمو کو 1.8 فیصد دے گی جس کے نتیجے میں 2.38 فیصد سالانہ ترقی کی شرح کو حاصل کرنے کے لیے آخری سہ ماہی میں 3.9 فیصد کی ترقی کی ضرورت ہوگی جس کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
تاہم اوپر کی نظرثانی کے ساتھ پچھلی سہ ماہی میں 2.38 فیصد سالانہ ترقی کے تخمینہ تک پہنچنے کے لیے 2.72 فیصد زیادہ قابل اعتبار اضافہ درج کیا جائے گا۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ پہلی دو سہ ماہیوں (جولائی تا دسمبر) کے لیے شرح نمو بڑھنے کی نظرثانی 2012 کی شرح نمو کو کم کرنے کی یاد دلا رہی ہے (جب زرداری کی قیادت میں حکومت تھی) دو سال بعد پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کی طرف سے بھی یہی رہا۔ پہلے سال جب پی بی ایس (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس) نے سہ ماہی جی ڈی پی کی شرح نمو کے اعدادوشمار کا حساب لگانا شروع کیا ہے جو شاید اس کی تجربے اور مہارت کی کمی کی وجہ سے ہے۔
اس تناظر میں کون پی بی ایس پر زور دے گا کہ وہ حالیہ مہینوں میں ساکھ کے ان سنگین مسائل کا ادراک کرے جن کا اسے خود مختار ماہرین اقتصادیات سے سامنا ہے جنہوں نے مہنگائی کے اعداد و شمار کو یہ بتاتے ہوئے چیلنج کیا ہے کہ اوسط کے بجائے سب سے کم بجلی کے نرخوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں ضروری اشیاء کی رعایتی قیمتوں کا حساب لگایا جا رہا ہے جو اگرچہ ہمیشہ دستیاب نہیں رہتیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اصل شرح 2.5 سے 3 فیصد پوائنٹس کے درمیان زیادہ ہے، یہ حقیقت ہے کہ پی بی ایس کے دعوؤں کے باوجود کہ مہنگائی 29.7 سے نیچے کی طرف جا رہی ہے عام لوگوں میں احساس بہتری پیدا ہونے کے عنصر کی کمی ہے ۔ دسمبر 2023 میں مہنگائی 29 اعشاریہ 7 فیصد سے جنوری 2024 میں 28.3 فیصد ، فروری میں 23.1 فیصد سے مارچ میں 20.7 فیصد اور اس سال اپریل میں 17.3 فیصد تک بتدریج کم ہوئی۔
پی بی ایس کا دعویٰ ہے کہ پہلی اور دوسری سہ ماہی کے دوران شرح نمو میں اضافے کی نظرثانی بڑی حد تک کان کنی اور کھدائی میں شرح نمو بڑھنے کی وجہ سے ہے جو تقریباً دگنی ہوگئی ہے - پہلی سہ ماہی میں 7.78 فیصد سے 15.46 فیصد تک – ادارہ شماریات نے نوٹ کیا کہ دوسری سہ ماہی میں کان کنی اور کھدائی میں مثبت تبدیلیوں کی وجہ سے صنعتی سرگرمیوں میں شرح نمو منفی0.84 فیصد سے 0.09 فیصد تک بڑھنے کی دوبارہ نظرثانی ہوئی۔ کان کنی اور کھدائی میں شرح نمو4.17 فیصد سے 4.39 فیصد تک اور تعمیرات (جس کا حیران کن طور پر حوالہ دیا گیا ہے کیوں کہ یہ اب تک منفی زون میں ہے -17.59 فیصد سے -10.85 فیصد تک) میں نظر ثانی ہوئی۔
اس تناظر میں یہ نوٹ کرنا تعلق رکھتا ہے کہ مزید جواز درکار ہے کیونکہ کان کنی اور کھدائی کا شعبہ پاکستان کے جی ڈی پی میں تقریباً 1.6 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور تقریباً 200,000 افراد کو براہ راست روزگار فراہم کرتا ہے۔
بجلی، گیس اور پانی کی سپلائی میں کمی بھی ایک عادت بنادی گئی ہے جس سے بلاشبہ نہ صرف پیداوار میں کمی ہوئی بلکہ یہ عوامل عام لوگوں کے معیار زندگی پر بھی اثر انداز ہوئے۔
اس لیے اعداد و شمار جمع کرنے والے محکمے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پالیسی سازوں کو باخبر فیصلے کرنے کے قابل بنانے کے لیے ممکنہ حد تک درست ڈیٹا فراہم کرے۔
پاکستانی حکومتوں نے پی بی ایس پر دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ایسے اعداد و شمار ظاہر کرے جو حقیقت کےبرخلاف اس کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے ۔ یہ ایک ایسا معاملہ جس نے پارٹی قیادت کو نااہل معاشی ٹیم لیڈروں کو برقرار رکھنے کے لیے بے وقوف بنایا ہو لیکن اس نے شاذ و نادر ہی عام لوگوں کو بے وقوف بنایا ہو جو روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ میں مصروف ہوں۔