سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے مالی سال 25 کیلئے بڑی بیس ٹیرف ایڈجسمنٹ کو باضابطہ بنادیا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ یاد رہے کہ مارچ 2024 کے آخر میں تقسیم کار کمپنیوں نے نیپرا کو مالی سال 25 کے لیے مکمل ریونیو کی ضروریات کے ساتھ پٹیشنز جمع کرائی تھیں۔ اس وقت نیپرا کی ویب سائٹ پر 10 ڈسکوز کی ریونیو کی ضروریات میں سے صرف 6 ہی عوام کی نظر میں تھیں جس کی بنیاد پر ریونیو کی ضرورت کا تخمینہ 4 ٹریلین روپے سے تجاوز ہونے کا لگایا گیا تھا۔
پاور ڈویژن سمیت متعدد ایجنسیوں کی مشاورت سے سی پی پی اے کی جانب سے پیش کردہ پاور پرچیز پرائس (پی پی پی) تخیمہ مالی سال 25 کے لیے پی پی پی کی کم ترین قیمت 25.03 روپے فی یونٹ مقرر کرتا ہے۔ سیاق و سباق کے لحاظ سے پی پی پی نے مالی سال کیلئے 22.95 روپے فی یونٹ کل 2866 بلین روپے کی اجازت دی تھی۔ مالی سال 25 کے لیے 3476 ارب روپے کا تخمینہ 21 فیصد زیادہ ہے۔ یونٹ کی مد میں یہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں صرف 9 فیصد اضافہ ہے جو کہ پچھلے کچھ سالوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر اضافے کے پیش نظر زیادہ نہیں لگتا ہے۔
تاہم معاملہ بظاہر آسان دکھائی دے رہا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ تخمینے کے 7 منظر ناموں میں سے بہتری صورتحال وہ ہے جو پی پی پی کو 25.03 روپے فی یونٹ واپس کرتا ہے۔ اب کون امید نہیں کرے گا کہ مالی سال 25 کے دوران یہ سچ رہے گا۔ لیکن اس پر غور کریں۔ ڈسکوز کے منظرنامے، جسے سی پی پی اے کے تخمینوں میں سیناریو 3 کہا جاتا ہے، میں فرض کیا گیا کہ بجلی کی فروخت مالی سال 25 میں 125 بلین یونٹس سے بڑھ کر تقریباً 139 بلین ہو جائے گی جو کہ 11 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس اعداد وشمار کی وضاحت کس طرح کی جاسکتی ہے جب پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہے۔ دوسرے منظرنامے، جنہیں ’کم‘ اور ’زیادہ‘ طلب کہا جاتا ہے - بجلی کی فروخت میں بالترتیب 3 اور 5 فیصد اضافے کا تصور کرتے ہیں ڈسکوز کے منظر ناموں سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔
پی پی پی میں ڈسٹری بیوشن مارجن اور پچھلے سال کی ایڈجسٹمنٹ سے اوپر ہیں جو کہ مالی سال 25 کے لیے 660 بلین روپے کے قریب ہیں جس کی وضاحت طلب کی سب سے بہترین صورت میں 660 بلین روپے یا 4.75 روپے فی یونٹ سے کی جاسکتی ہے۔اس منظر نامے کے تحت مجموعی طور پر ریونیو کی ضرورت اب بھی 4.1 ٹریلین روپے سے تجاوز کر جائے گی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 850 ارب روپے یا 26 فیصد زیادہ ہے۔
بشمول زیربحث بیشتر منظر نامے تجویز کرتے ہیں کہ ڈالر کا ریٹ 275 روپے مقرر کردیا جائے۔ اس پر زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ایسا ایک سال کے لئے بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کی مدت میں ایک سال اور بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔اگر پاکستان اپنی 5 فیصد کی تاریخی سالانہ گراوٹ کی طرف لوٹتا ہے تو پی پی پی کو طلب میں اضافے کے منظر نامے کے تحت 27 روپے فی یونٹ تک لے جاسکتا ہے۔اس حوالے سے مساوات کے لئے کئی مفروضے شامل ہوتے جو کہ اکثر سمجھ سے بالا ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہیں۔
پی پی پی کے تخمینوں کے لیے مختلف ایندھن استعمال کرنے کا تصور بھی اب تک عوام کے سامنے لایا جانا ہے اور کون امید کررہاہے کہ مالی سال 2024 کی غلطی نہیں دہرائی گئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کس طرح مالی سال 24 کے حوالے سے قیمتوں میں آر ایل این جی پیداوار کا حصہ صرف 6 فیصد سے کم ہے جبکہ حقیقت میں یہ تین گنا زیادہ ہے۔ اور یہ سب ریکوری اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کے برابر ہونے سے پہلے ہے۔ پھر ٹیکسوں اور تجارتی بنیادوں پر لوڈ شیڈنگ کی بہتات ہے یہ دونوں ہی صارفین کی فلاح و بہبود کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن اس پر پہلے ہی کافی کہا اور لکھا جا چکا ہے۔
حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات لاگت کم کرنے والے علاقوں میں منتقل ہوں گی، یہ ایک بہت ہی خوش آئند اقدام ہے لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے۔