ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ قابل تجدید ذرائع کو وسعت دینے کی طرف بڑھنے والی تازہ ترین کمپنی بن گئی کیونکہ لسٹڈ فرم نے اپنے احاطے میں 8.3 میگاواٹ کی حامل قابل تجدید توانائی کی تنصیب کے لیے ’گرین انرجی پلان‘ کا اعلان کیا ہے۔
کمپنی نے جمعہ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو ایک نوٹس میں اس پیشرفت کا اشتراک کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے گرڈ بجلی پر انحصار کم کرنے اور اخراجات میں کمی کے لیے گرین انرجی پلان کی اصولی منظوری دی ہے۔
کمپنی نے بتایا کہ اس کی انتظامیہ ایکشن پلان پر کام کر رہی ہے اور اب پلانٹ کے احاطے میں 3.5 میگاواٹ کے سولر پینلز کی تنصیب کے آخری مراحل میں ہے۔
مزید برآں کمپنی نے ایم /ایس اورینٹ انرجی سسٹم ایف زیڈ سی او کے ساتھ پلانٹ کے احاطے میں 4.8 میگاواٹ کے ونڈ مل پروجیکٹ کی تنصیب کے لیے ایک انتظام بھی کیا ہے۔
کمپنی نے کہا کہ منصوبے کے باضابطہ معاہدے، شرائط و ضوابط پر، اورینٹ انرجی سسٹمز ایف زیڈ سی او کے ساتھ دستخط مقررہ وقت پر کیے جائیں گے
نوٹس کے مطابق ان اقدامات سے گرڈ بجلی پر کمپنی کا انحصار 50 فیصد کم ہو جائے گا۔
ٹھٹھہ سیمنٹ کا خیال ہے کہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے میں سرمایہ کاری کے یہ اقدامات لاگت کی بچت میں اہم کردار ادا کریں گے۔
بڑھتے ہوئے ٹیرف کے سبب پاکستان کی صنعتی کمپنیاں یا اس کی بنیاد شمسی توانائی کی طرف منتقلی کا عمل تیز کررہی ہیں۔
پاکستان توانائی کے مسائل سے نمٹنے اور روایتی فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔
ملک میں سیمنٹ بنانے والی کئی فرموں نے بھی قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا سہارا لیا ہے۔
گزشتہ سال اگست میں پاکستان کے سب سے بڑے سیمنٹ مینوفیکچررز میں سے ایک لکی سیمنٹ نے کراچی میں واقع اپنے 25 میگاواٹ کیپٹیو سولر پاور پلانٹ کے کامیاب کام کا اعلان کیا۔
اسی طرح ڈی جی خان سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (ڈی جی کے سی) نے گزشتہ سال مارچ میں خیرپور میں اپنی سائٹ پر 7 میگاواٹ کا آن گرڈ سولر پاور پلانٹ کامیابی سے نصب کیا۔
یہ اقدام ایسے وقت میں ہوا جب صنعتی اور تجارتی بجلی کے نرخوں میں پچھلے دو سالوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔
توانائی کی بلند قیمتوں نے گزشتہ سال پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا اور پالیسی سازوں نے اس شعبے کی عملداری کے لیے سرجوڑنے کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔
پاکستان نے بجلی کی صلاحیت میں اضافے کے لیے سخت پالیسی اپنائی، لیکن برسوں سے جاری سست اقتصادی ترقی بجلی کی چوری، اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس میں کم سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ بل کی وصولی برابر نہیں رہی۔
مہنگائی کی سبب شرح سود بلند رکھے جانے کے سبب ساتھ توانائی کی طلب میں مزید کمی آئی ہے، جس سے حکومت کو گومگو کی صورتحال کا سامنا ہے۔