سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے عدلیہ کے خلاف حالیہ بیانات پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سعادت عرفان خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لیا تھا جس میں انہوں نے عدالتی معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت کے ثبوت مانگے تھے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق بیان پر سوالات اٹھائے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ صرف الزام لگانا کافی نہیں ہے، عدالت میں ثبوت پیش کیے جانے چاہئیں۔
انہوں نے جسٹس ستار پر زور دیا کہ وہ مبینہ مداخلت کا ثبوت فراہم کریں۔ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے بھی اس معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔
فیصل واوڈا نے بیرونی اور داخلی سازشوں سے قوم کی حفاظت کی اہمیت پر زور دیا اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
ججوں کا خط
مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفعت امتیاز نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو خط لکھ کر عدالتی کاموں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں رہنمائی طلب کی تھی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر از خود نوٹس لیا جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے عدالتی کام میں مداخلت اور دھمکیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی اپنی عدالتوں میں فل کورٹ اجلاس منعقد کیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مستقبل میں ان کے عدالتی کام میں اس طرح کی مداخلت کی صورت میں ادارہ جاتی جواب دیا جائے گا۔