ایف بی آر بیساکھیوں کا سہارا لینا چھوڑ دے

17 مئ 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس وصولی کے اہداف پورے کرنے میں مکمل ناکامی کا ایک نیا اشارہ دیتے ہوئے ٹیکس اتھارٹی کی جانب سے 2023 کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو مجبور کرنے کے لیے کیے جانے والے تازہ ترین ناقابل فہم اقدام کو روک دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 14 مئی کو ایک درخواست کی سماعت کے دوران ایف بی آر کی جانب سے ٹیلی کام سیکٹر کو 5 لاکھ سے زائد نان فائلرز کے سم کارڈ بلاک کرنے کی ہدایت کو چیلنج کرتے ہوئے ٹیکس ادارے کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا اور کیس کی اگلی سماعت پر اس معاملے پر جواب طلب کیا تھا۔

ایف بی آر کی تاریخ کا ایک مختصر مطالعہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ ٹیکس ادارہ پیچیدہ طریقوں اور حیران کن حکمت عملیوں کو وضع کرنے میں مہارت رکھتا ہے، جس نے اس کی بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ اور نااہلی کے ساتھ ملکر ٹیکس وصولی کی موجودہ سنگین صورتحال کو جنم دیا ہے، ایف بی آر کے مطابق 2 ٹریلین روپے سے زیادہ کی رقم ٹیکس مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ جبکہ موثر اقدامات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس بیس محدود ہے، موثر کوششوں سے ٹیکس بیس میں اضافے کے ساتھ ٹیکس کے قانونی معاملات کو تیز رفتاری سے حل کیا جاسکتا ہے۔

ایف بی آر کی ٹیکس سے متعلق قانونی چارہ جوئی کی انتہائی غیر موثر ہینڈلنگ کو گزشتہ ہفتے اٹارنی جنرل برائے پاکستان نے بیورو کے چیئرمین کو لکھے گئے دو خطوط میں کچھ تفصیل سے اجاگر کیا ہے جس میں عدالتوں میں ٹیکس باڈی کی قانونی ٹیموں کی ناقص کارکردگی کی مذمت کی گئی ہے۔

خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جب ایف بی آر کے خلاف ریونیو کے معاملات کا فیصلہ اپیلٹ ٹریبونلز میں ہوتا ہے تو بیورو کے وکلا فوری طور پر عدالتوں میں فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر نہیں کرتے، اکثر ایسا کرنے کے لیے آخری ممکنہ لمحات تک انتظار کرتے ہیں اور جب ریویو دائر کیے جاتے ہیں تو وکلا کی سستی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناع کئی ماہ تک حاصل نہ ہوپائے۔

مزید برآں ایف بی آر کے نمائندے نوٹسز جاری ہونے کے باوجود باقاعدگی سے عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیورو کے مختلف فیلڈ فارمیشنز اور محکموں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ”مکمل افراتفری“ پھیل گئی ہے، جس کی وجہ سے بار بار سماعت ملتوی ہو رہی ہیں اور قومی خزانے کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے نان فائلرز کے سم کارڈبلاک کرنے کا حکم دینے کی کہانی کی بات کی جائے تو یہ بیورو کی جانب سے معیشت کے دیگر شعبوں کے لیے مسائل پیدا کرکے اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کی ایک اور عمدہ مثال ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ اس حیران کن اقدام کے مصنفین اسے وضع کرتے وقت کیا سوچ رہے تھے۔ کیا انہوں نے واقعی کوئی ایسا قدم اٹھانا دانشمندانہ سمجھا جو ٹیلی کام کمپنیوں کو مؤثر طریقے سے سزا دے، جنہوں نے اتفاق سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) اور آمدنی پیدا کرنے کی شکل میں معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے؟ انہیں ہماری ٹیکس بیوروکریسی کی نااہلی کی سزا کیوں دی جائے؟ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران درست نشاندہی کی گئی تھی، یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 18 میں درج کاروبار کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

درحقیقت ایف بی آر نہ صرف وصولی کے اہداف حاصل کرنے، ٹیکس بیس بڑھانے اور ٹیکس قانونی چارہ جوئی سے موثر طریقے سے نمٹنے میں ناکام ہو رہا ہے بلکہ درحقیقت وہ ایسے اقدامات کر کے معاملات کو مزید خراب کر رہا ہے جن سے ایف ڈی آئی کی آمد کی حوصلہ شکنی ہو اور ملک میں کاروباری ماحول خراب ہو۔

کم از کم، ایف بی آر ٹیکس قانونی چارہ جوئی کی سست رفتار کو ٹھیک کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو بڑی حد تک اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی قانونی ٹیموں کو اعلی عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے کے بارے میں فعال اور تیز رفتار ہونے سے کیا چیز روک رہی ہے؟

اس کے مختلف فیلڈ فارمیشنز اور محکموں کے درمیان کوآرڈینیشن کو بہتر بنانا کتنا پیچیدہ ہے؟ حکومت اعلیٰ عدالتوں میں محصولات کے معاملوں کی سماعت کرنے والے بنچوں کی تعداد میں اضافہ کیوں نہیں کر سکتی؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری ٹیکس بیوروکریسی یہ جان لے کہ اگر وہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کے لیے سنجیدہ ہے تو وہ اس کوشش کے لیے درکار سخت محنت سے گریز نہیں کر سکتی، ان کی تنگ نظری میں مہارت آئین کے تحت دی گئی آزادی کی خلاف ورزی کے ساتھ ملک میں انتہائی ضروری غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے خلاف بھی اقدام جنگ ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments