اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ سیاسی غیر یقینی صورتحال، غیر متوازن پالیسیوں، کمزور گورننس اور پبلک ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے معاشی تعطل میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے حزب اختلاف، شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے خان انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرانے اور عالمی کریڈٹ ایجنسیوں کی جانب سے موجودہ شور میں مزید اضافہ ہوگا۔ جس کا براہ راست اثر بیرون ملک کمرشل سیکٹر سے قرض لینے کی لاگت کے ساتھ ساتھ ڈیٹ ایکویٹی کے اجراء پر بھی پڑے گا۔
تاہم، اس بات پر زور دو اہم عناصر کو نظر انداز کرتا ہے: (۱) سیاسی غیر یقینی صورتحال (چاہے وہ ریاست کے تین ستونوں یعنی ایگزیکٹو، عدلیہ اور مقننہ کے اندر ہو یا ایک ستون میں شامل اداروں کے اندر ہو) کا اس وقت تک کوئی فوری نتیجہ نہیں نکلتا جب تک کہ کسی بڑے شہر یا خطے میں حزب اختلاف کی قیادت میں احتجاجی تحریک شروع نہ کی جائے جو معاشی سرگرمیوں میں خلل ڈال سکے۔ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) کا حالیہ پرتشدد احتجاج خطے میں زندگی گزارنے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ایک خود ساختہ تحریک تھی جس کی قیادت کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی تھی۔ اور (۲) معاشی تعطل دہائیوں پر محیط طویل مدتی ہے جس کی بنیاد مسلسل ناقص پالیسیوں پر ہے جو آج تک جاری ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف ہتک آمیز بیان بازی کے باوجود بااثر افراد کے ایک خاص گروہ کو فائدہ پہنچانے کی پالیسیوں میں کم ہی تبدیلی کی گئی ہے اور اس میں تسسل برقرار ہے اگرچہ اقربا پروری سے فائدہ اٹھانے والے ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ میں بدلتے رہے ہیں۔ ایمنسٹی اسکیموں کے پھیلاؤ، عطیہ دہندگان کی مخالفت کے باوجود قانونی ریگولیٹری احکامات جاری کرنے سے باز رہنے کی مزاحمت اور موجودہ اخراجات کو کم کرنے میں ناکامی سے اسکی وضاحت ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمزور گورننس اور پبلک ایڈمنسٹریشن سیاسی غیر یقینی صورتحال کا نتیجہ ہیں۔ کوئی بھی اس دعوے کی مکمل حمایت کرے گا لیکن پھر ان دونوں عوامل میں سے کسی کو بھی ہمارے سماجی و اقتصادی تانے بانے کے حالیہ اجزاء نہیں کہا جا سکتا۔
بہت سے لوگ یہ دعویٰ کریں گے کہ دہائیوں پرانے مسائل سے نمٹنے میں مسلسل ناکامی نے نہ صرف وقت کے ساتھ صورتحال کو خراب کیا بلکہ فی الحال بھی کوئی اصلاحی پالیسی موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2021 کے اواخر سے جون 2022 تک جب حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روپے اور ڈالر کی قدر کو غیر ضروری طور پر کنٹرول کیا گیا تھا حالانکہ اس وقت ذخائر گر چکے تھے اور اس کو روپے کو سہارا دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس کے نتیجے میں متعدد شرح تبادلہ ابھرکر سامنے آئیں اور ہنڈی/ حوالہ مارکیٹ دوبارہ فعال ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں تقریبا 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس معاملے پر کوئی احتساب نہیں ہوا ہے حالانکہ اسکی ملک کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔
آج حکومت کی توجہ اس کے پیشروؤں کی طرح بہت قلیل مدت پر ہے: ان کی توجہ طویل مدت میں فائدہ دینے والی پالیسی فریم ورک تشکیل دینے کے بجائے آج اپنے اخراجات کی ترجیحات کو پورا کرنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ اسٹیک ہولڈرز کے موجودہ گروپ کی ذہنیت ہے۔
تمام سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی فروخت یقینی طور پر ایک طرف کافی مالی وسائل پیدا کرے گی اور دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرکے بجٹ اخراجات کو کم کرے گی۔ پاکستان میں آج سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت مقامی کمرشل بینکنگ سیکٹر سے بھاری قرضے لے رہی ہے اور اس طرح نجی شعبے سے قرضے لے رہی ہے، یا پھر 22 فیصد کی بلند شرح سود کے ذریعے (جو گزشتہ ماہ 13.1 فیصد بنیادی افراط زر کے دعوے کو مدنظر رکھتے ہوئے جائز نہیں ہے)۔
عالمی سطح پر ریٹنگ ایجنسیوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل اور اگلے مرحلے کے لیے جاری مذاکرات کے باوجود ابھی تک پاکستان کو اپ گریڈ نہیں کیا ہے، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے کمرشل سیکٹر سے بیرون ملک قرضے لینے میں مسلسل ناکامی ہے کیونکہ پیشکش کی شرح سود بہت زیادہ ہے۔
یہ بلند شرح سود سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے دی گئی کم ریٹنگ کی وجہ سے ہے جس کی وجہ ہماری مسلسل ناقص معاشی پالیسیاں ہیں۔ اس تناظر میں، ایک غیر ملکی سرمایہ کار کی جانب سے ایس او ای کے لئے پیش کش کرنے کا امکان نہیں ہے جب تک کہ مالی اور مالیاتی مراعات قابل قبول نہ ہوں.
لہٰذا موجودہ صورت حال کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس سے آؤٹ آف دی باکس پاکستان کیلئے مخصوص پالیسی اصلاحات کو لاگو کیے بغیر مؤثر طریقے سے نمٹا نہیں جا سکتا،اپنے وسائل کے اندر زندگی گزارنے کے لئے ہمیں موجودہ اخراجات میں نمایاں کمی کی ضرورت ہوگی، اور آج تنقید کو تعریف میں تبدیل کرنے کا انتظار ہے، کیونکہ معیشت رخ تبدیل کررہی ہے، لیکن یہ ایک یا دو بجٹ میں نہیں ہوگا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024