پہلی ششماہی: زرعی شعبے کی وجہ سے جی ڈی پی میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک

  • آئی ایم ایف پروگرام نے بیرونی کھاتوں پر دباؤ کم کرنے میں مدد کی، رپورٹ
اپ ڈیٹ 15 مئ 2024

منگل کو جاری ہونے والی مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے لیے اسٹیٹ آف پاکستان کی اقتصادی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے کی وجہ سے حقیقی جی ڈی پی میں مالی سال 24 کی پہلی ششماہی میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 23 کی اسی مدت میں یہ شرح 1.6 فیصد تھی اور مالی سال 23 کی دوسری ششماہی میں اس میں 1.9 فیصد کمی آئی تھی۔

رپورٹ جولائی تا دسمبر مالی سال 24 کے اعداد و شمار کے آئوٹ ٹرن پر تیار کردہ تجزیہ پر مشتمل ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سکڑائو کے مقابلے میں حقیقی معاشی سرگرمیاں معتدل طور پر بحال ہوئیں جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ(ایس بی اے) نے بیرونی کھاتوں پر دباؤ کو کم کرنے میں مدد کی۔

دریں اثنا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالیاتی اور مانیٹری پالیسیوں، بہتر زرعی پیداوار اور عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باعث کافی حد تک کم ہوا۔ مالی لحاظ سے پرائمری بیلنس نے مالی سال 23 کی اسی مدت کے مقابلے میں مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران زیادہ سرپلس حاصل کیا جس کی وجہ ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات دونوں میں زبردست اضافہ تھا جو غیر سودی اخراجات میں اضافے سے زیادہ تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی طلب میں کمی کے باوجود افراط زر کا دباؤ بلند سطح پر برقرار رہا۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 24 کی پہلی ششماہی میں ترقی کی قیادت زراعت نے کی، کپاس اور چاول کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجہ سازگار موسمی حالات، ان پٹ کی بہتر دستیابی اور پالیسی مراعات ہیں۔ ان عوامل نے کاشتکاروں کو گندم کی کاشت کا رقبہ بڑھانے کی ترغیب بھی دی۔ زراعت کے شعبے میں بحالی سے زراعت پر مبنی کچھ صنعتوں کو بھی مدد ملی۔ اس کے علاوہ، درآمدات کو ترجیح دینے کے اقدامات کو واپس لینے کی ضرورت ہے

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایس بی اے کی منظوری سے بیرونی قرض لینے کی رکاوٹوں میں کمی آئی جس کے نتیجے میں مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران مالی رقوم کی آمد میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کم شیڈول ادائیگیوں اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی نے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی طلب میں کمی اور عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باوجود طویل ساختی مسائل، مالی سال 23 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، حکومتی اخراجات میں اضافہ اور رسد میں اتار چڑھائو نے افراط زر کو بلند سطح پر برقرار رکھا۔

مالی سال 24 کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی افراط زر میں استحکام کے ذمہ دار متعدد عوامل تھے جن میں ان پٹ لاگت میں اضافہ، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ اور مالی سال 24 کے بجٹ میں اعلان کردہ کم از کم اجرت میں اضافے پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ خوراک اور توانائی کی اشیاء کی انتظامی قیمتوں کے دوسرے مرحلے کے اثرات شامل ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments