بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے توانائی شعبے میں مضبوط لاگت سے متعلق اصلاحات پر زور دیا ہے جس میں بجلی کی خریداری کے معاہدوں کی شرائط پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے حال ہی میں ختم ہونے والے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت دوسرے اور آخری جائزے کے لیے اپنی اسٹاف رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو مالی سال 2023-24 کے سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان (سی ڈی ایم پی) کے 2.3 ٹریلین روپے کے ہدف کو زیرو نیٹ زیرو اسٹاک جمع ہونے کے ساتھ پورا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 25 کی سالانہ ری بیسنگ کا بروقت نوٹیفکیشن مزید گردشی قرضوں کے بہاؤ کی روک تھام کے لیے اہم ہوگا اور اس سے وصولیوں کی مزید کوششیں بھی جاری رہیں گی جن میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ کو بڑھانے اور ادارہ جاتی بنانے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
اس کے متوازی حکام کو زرعی ٹیوب ویل سبسڈی اصلاحات پر زور دینا چاہیے جس کیلئے مالی سال 24 کے آخر تک حتمی منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ توانائی شعبے کی قابلیت کو بحال کرنے کے لئے لاگت کے لحاظ سے مضبوط اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اس میں شامل ہے:
ٹرانسمیشن انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی کوششوں کا تسلسل، بشمول بہتر انضمام اور قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں توسیع ہے ۔
نجکاری یا طویل مدتی انتظامی مراعات سے ڈسکو کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔
کیپٹیو پاور ڈیمانڈ کو گرڈ میں منتقل کیا جائے
جہاں ممکن ہو، بجلی کی خریداری کے معاہدوں کی شرائط پر نظرثانی کی جائے۔
عوامی ضمانت یافتہ پی ایچ پی ایل قرض کو سستے عوامی قرض میں تبدیل کرنا جاری رکھنا چاہیے۔
اسٹاف رپورٹ 65 صفحات پر مشتمل ایک اہم دستاویز ہے کیونکہ اس میں اصلاحات کے ایجنڈے کا وسیع پیمانے پر خاکہ پیش کیا گیا ہے جو یا تو پاکستان کی طرف سے شروع کیا گیا ہے یا جہاں اسلام آباد کو مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
توانائی شعبے کے معاملے میں، بجلی کی خریداری کے معاہدوں کی شرائط بہت زیادہ زیر غور نہیں آئیں کیونکہ سب سے پہلے توجہ ریکوری اور ٹیرف کو پائیدار سطح تک لے جانے پر مرکوز رہی۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ سال پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے اور اس نے توانائی کی طلب کو بھی کم کر دیا تھا اور پالیسی سازوں نے اس شعبے کی عملداری کے لیے آگے بڑھنے کے بارے میں اپنے سر جوڑ لئے تھے۔
پاکستان نے بجلی کی صلاحیت میں اضافے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائی لیکن برسوں کی سست معاشی ترقی، بجلی چوری اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس میں کم سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ بلوں کی وصولی برابر نہیں رہی۔
افراط زر میں اضافے کی وجہ سے شرح سود میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے توانائی کی طلب میں مزید کمی واقع ہوئی ہےجس سے اسلام آباد کو ’کیچ 22‘ کی صورت حال میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
اپنی اسٹاف رپورٹ میں آئی ایم ایف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس شعبے کا واحد پائیدار حل لاگت اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کن کارروائی ہے۔
آئی ایم ایف کے عملے کی رپورٹ بھی ایک اہم دستاویز ہے کیونکہ بہت سے لوگ اسے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک طویل اور بڑے پروگرام کے لئے پاکستان کی کوششوں کی روشنی میں ایک رہنما اصول کے طور پر دیکھتے ہیں۔
توقع ہے کہ قرض دہندہ کا ایک مشن رواں ماہ بجٹ سازی کی مشق سے پہلے دورہ کرے گا جہاں فی الحال نان فائلرز اور خوردہ فروشوں کیلئے نئے ٹیکس اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ کے ایک حصے لیٹر آف انٹنٹ میں پاکستان نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ خاص طور پر کم ٹیکس والے شعبوں میں نمایاں اضافی محصولات جمع کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا۔