حالیہ اعداد و شمار کے نکات اور رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ افراط زر توقع سے زیادہ تیز رفتار سے نیچے آنے کا امکان ہے۔ یہ پچھلے سال کے بالکل برعکس ہے جب افراط زر میں اضافہ توقعات سے زیادہ تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان 2022-23 میں سود کی شرح میں ہونے والے اضافے کے پیچھے تھا، اور ایسا لگتا ہے کہ 2024-25 میں بھی شرح سود میں کمی کے معاملے میں وہ ایسا ہی رہے گا۔ شاید یہ مہنگائی یا افراط زر کی توقعات کو کم رکھنے اور بیرونی کھاتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بلند تر حقیقی ریٹس کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی ہے ، جو پاکستان کی مالیاتی پالیسی کے پیچھے محرک قوت ہوسکتی ہے۔
بنیادی اثر کی وجہ سے افراط زر میں کمی متوقع تھی ، اور یہ واقعی ہو رہی ہے۔ مزید برآں، اس میں ماہ بہ ماہ (ایم او ایم) کمی کافی حوصلہ افزا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اوسط افراط زر کی شرح منفی 0.4 فیصد رہی جو گزشتہ 24 ماہ میں 2.1 فیصد تھی۔
اپریل میں یہ منفی 0.4 فیصد تھی اور ہفتہ وار افراط زر کے رجحان کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ یہ مئی میں بھی منفی رہے گی۔ 2014 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب ایم او ایم کی لگاتار دو ریڈنگ منفی رہی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپریل 2024 میں کیے گئے تازہ ترین سروے سے پتہ چلتا ہے کہ صارفین کی افراط زر کی توقعات اب بھی بلند ہیں، اگرچہ کاروباری اداروں کے لیے آہستہ آہستہ کمی آ رہی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کی حالیہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے، افراط زر کو کم رکھنے کی ان توقعات کوسنبھالنا بہت ضروری ہے۔
گزشتہ سال، جب ایم او ایم میں اوسط اضافہ 2.2 فیصد تھا، خوردہ فروشوں، ڈسٹری بیوٹرز، درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز نے مستقبل میں اضافے کی توقع میں قیمتوں میں اضافہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ فوری طور پرمصنوعات فروخت نہ کریں تو وہ مستقبل میں کرسکتے ہیں، کیونکہ انہیں توقع تھی کہ افراط زر زیادہ رہے گی۔تاہم اب یہ رجحان الٹا ہورہا ہے،اور کاروباری حلقے کی جانب سے افراط زر میں کمی کی توقع گھٹ رہی ہے۔
یہ رجحان آٹو مارکیٹ میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں جزوی طور پر حکومت کی ٹیکس پالیسیوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ مینوفیکچررز پہلے ہی قیمتوں میں کمی کرچکے ہیں ۔ دوسرے لوگ بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اسمبلرز طلب کو بڑھانے کے لیے پرنسپلز کے ساتھ مکمل طور پر بند کِٹس (CKD) پر رعایت پر بات چیت کر رہے ہیں، اور کم عالمی طلب کی وجہ سے سپلائرز بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
بہت سی دیگر صنعتیں بھی اس کی پیروی کر سکتی ہیں ، کیونکہ بہت سوں کیلے کپیسیٹی یوٹیلائزیشن ایک چیلنج ہے۔ خراب نہ ہونے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی افراط زر میں کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ 2021 کے آغاز سے اب تک خوراک کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، لیکن اب اضافے کا یہ رجحان سست روی کا شکار ہے، گزشتہ ماہ خوراک کی قیمتوں میں 2.3 فیصد کمی ہوئی ہے، اور مئی 2024 میں بھی اسی طرح کی کمی متوقع ہے۔
یہ کمی رواں مالی سال میں گندم کی درآمدات سے شروع ہوئی، اس کے بعد رواں سال زبردست فصل ہوئی، جس کے نتیجے میں ضرورت سے زیادہ رسد ہوئی اور بین الاقوامی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔ گندم کی کم قیمتیں دیہی مزدوری کو متاثر کر سکتی ہیں، جو اکثر فصل کی اچھی قیمت سے منسلک ہوتی ہیں۔ کم اجرتوں سے دیہی بنیادی افراط زر میں کمی آئے گی، جو شہری افراط زر سے زیادہ ہے، کیونکہ دیہی علاقوں میں اجرتوں میں اضافہ زیادہ تھا۔
اگرچہ گندم کی افراط زر میں کمی حقیقی ہے اور اس کا اثر دیگر اشیائے خوردونوش پر پڑنے کا امکان ہے، جس سے مجموعی طور پر افراط زر کی توقعات میں کمی آئے گی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں نمایاں طور پر کمی کرے۔ اسٹیٹ بینک کو احتیاط برتنی چاہیے اور حقیقی شرحوں کو کافی حد تک مثبت رکھنا چاہیے۔ تاہم مئی میں افراط زر کی شرح 14 سے 15 فیصد رہنے کی توقع ہے، اس لیے ایم پی سی (مانیٹری پالیسی کمیٹی) کے اگلے اجلاس میں شرح سود میں علامتی کٹوتی کا امکان ہے۔
حتیٰ کہ اگر افراط زر 2025 میں سنگل ہندسوں کو چھو بھی لے اور گراوٹ توقع سے کہیں زیادہ تیز ہوجائے ، تب بھی شرح سود میں کمی اتنی تیز نہیں ہوسکتی۔ اسٹیٹ بینک کے لیے اہم معاملہ بیرونی کھاتوں کا انتظام کرنا ہے، کیونکہ جارحانہ کٹوتیوں سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو اس وقت بمشکل دو ماہ کی درآمدات کا احاطہ کرتا ہے۔ توجہ زرمبالہ کے ذخائر میں اضافے پر ہونی چاہئے ، جس کے لئے بلند شرح سود محرک کے طور پر کام کرسکتی ہے۔
آئندہ بجٹ اور آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے نتائج افراط زر سے متعلق ہوسکتے ہیں۔ توقع ہے کہ سخت مالیاتی پالیسی جاری رہے گی، اور پیٹرولیم مصنوعات پر کوئی نیا ٹیکس نہیں ہوگا، اگرچہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا چیلنج درپیش ہوسکتا ہے۔ توانائی کی قیمتوں پر نظرثانی اور نئے ٹیکسوں کو فرض کرتے ہوئے مجموعی طور پر، پیش گوئی کم افراط زر ہے۔
کرنسی کا طرزعمل بہت اہم ہے۔ تازہ ترین حقیقی مؤثر شرح تبادلہ( ریئل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ (REER) 104 پر ہے۔ اگرچہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے میں بڑی حد تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، لیکن دیگر تجارتی شراکت دار ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں اس کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا اگلے پروگرام کے آغاز کے ساتھ پاکستانی کرنسی کی قدر میں معمولی کمی کا امکان ہے تاکہ صارفین کی افراط زر کی توقعات پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ دو سالوں کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی سخت پالیسی کا کچھ جواز موجود ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ افراط زر میں کمی کا امکان ہے، اور اسٹیٹ بینک اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ کم رہے۔ بیرونی اکاؤنٹ کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے، حقیقی شرح سود نمایاں طور پر مثبت رہنے کا امکان ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024.