برآمدات کا فروغ

05 مئ 2024

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) حکومت، خاص طور پر وزارت تجارت کا کام کر رہی ہے۔ اس کا پانچ سالہ برآمدات کا چارٹر اور درآمدات کا متبادل منصوبہ، جو اس ماہ کے شروع میں وزیر تجارت کو پیش کیا گیا، بجا طور پر نوٹ کرتا ہے کہ ”طویل مدتی برآمدی پالیسی کے بغیر اور ایک واضح انداز میں بیان کردہ صنعتی پالیسی جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو وزیراعظم کی قیادت میں اکٹھا کرتی ہو کے بغیر پاکستان کی برآمدات پائیدار انداز میں بڑھنے اور متنوع ہونے کا امکان نہیں ہے“۔

اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی کو صرف پچھلی چند دہائیوں کی جمود کا شکار، بلکہ زیادہ تر کم ہوتی ہوئی برآمدی رسائی اور آمدنی کو دیکھنا ہوگا۔ کونسل نے ممکنہ اقدامات کی ایک متاثر کن فہرست پیش کی جو قومی برآمدی پالیسی میں نئی ​​جان ڈالنے میں مدد کر سکتی ہے ۔

مجوزہ منصوبے میں وزیراعظم کے زیر نگرانی پانچ سالہ قومی چارٹر کی ضرورت پر زور دیا گیا، جو سمجھ میں بھی آتا ہے۔ اس میں برآمدات اور صنعتی پالیسیوں کے درمیان مضبوط روابط کی ضرورت بھی بیان کی گئی ہے۔ اور برآمدات کو بحال کرنے کے لیے دیگر روایتی حل کے علاوہ تجارتی سفارت کاری، توانائی کی مسابقتی شرحوں اور ایک مستحکم مقامی کرنسی جیسے لوازمات کا ذکر ہے۔

منصوبے میں درآمدی متبادل کے حوالے سے بھی انتہائی معقول سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ جیسے صنعتی ان پٹ پر سے ڈیوٹی ہٹانا، گرین فیلڈ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا، پلانٹ اور صنعت میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا وغیرہ۔ یہ تجاویز متاثر کن اور قابل تعریف ہیں، اس میں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جس کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم نہ ہو، خاص طور پر پچھلے 30 سال یا اس سے زیادہ عرصے سے ہر حکومت یہ سب جانتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس عرصے میں کسی بھی حکومت کی سیاسی خواہش نہیں رہی ہے کہ وہ مشکل لیکن ضروری اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھا سکے۔ جو کہ ہماری قیادت، خاص طور پر سیاسی اشرافیہ پر ایک فرد جرم ہے جو جمہوریت کے لیے اپنی بے شمار قربانیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتی، لیکن جہاں تک ملک کی حقیقی ترقی کا تعلق ہے، اس کے پاس دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

اور یہ تقریباً ناقابل یقین ہے کہ ہمارے پاس اب تک کوئی مناسب برآمدی پالیسی نہیں ہے۔ ہم اب بھی اضافی پیداوار برآمد کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور یہی اس کی انتہا ہے۔ ہم نے ابھی تک عالمی منڈیوں کا سروے کرنے اور اپنے مقاصد کی نشاندہی کرنے کا بنیادی کام نہیں کیا جو ہمارے قدرتی پیداواری فوائد کے مطابق ہوں اور اس کے مطابق ہی ان سے کام لیا جائے۔

یہ بہت دلچسپ ہے کہ پی بی سی نے نئی مارکیٹ تک رسائی کے لیے گفت و شنید کیلئے اقتصادی سفارت کاری کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ یہ وہی ہے جو تمام ممالک ہمیشہ سے کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے نئی مارکیٹوں کی تلاش کے لیے صحیح طریقے سے متحرک ہونے کا واحد موقع ایک نام نہاد ڈکٹیٹر کا دور تھا۔

صدر مشرف نے صرف پاکستانی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ذاتی طور پر سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کیں ، حتیٰ کہ اس مقصد کیلئے لاطینی امریکہ کے رہنماؤں تک سے ون آن ون ملاقاتوں کیلئے درخواست کی۔ ہمارے سویلین لیڈروں کو ایسی چیزوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، یہاں تک کہ پیسے کی کمی کا شکار پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی حکومت بھی زرمبادلہ کی تلاش میں نکلی۔ لیکن اس کی توجہ سیاحت کو راغب کرنے پر زیادہ تھی، جو کہ ایک اور بہت ضروری چیز ہے۔

ایس ایم ایز(چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں) کی مالی اعانت کے بارے میں نکتہ نظر، کیونکہ بینک زیادہ خطرے کی وجہ سے انہیں قرض دینے سے کتراتے ہیں،اس حوالے سے تمام پلیٹ فارمز طویل عرصے سے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ایس ایم ایز کو دستاویزی بنائیں۔ یہ شعبہ آبادی کے بڑے حصے کو ملازمت دیتا ہے، اس کو اب بھی قرض تک رسائی میں مسائل کا سامنا ہے، جس کی حکومت کو بالکل بھی فکر نہیں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ برآمدات کو بڑھانا ایک طویل المدتی عمل ہے،جس کے لیے پاکستان کے پاس پہلے ہی وقت ختم ہو چکا ہے۔ جس میں مارکیٹوں کی مکمل تحقیق، منصوبہ بندی، وسائل کو باضابطہ بنانا، صنعت کو بہتر بنانا اور مؤثر سفارت کاری کو یقینی بنانا شامل ہے۔

موجودہ سالوینسی بحران کی مایوسی کسی نہ کسی طرح حکومت کو برآمدات بڑھانے کے بارے میں تاخیر کا احساس دلاتی ہے، تو یہ سب کچھ بروقت مکمل کرنے کے لیے جدوجہد کا سامنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، توانائی کی لاگت اور کرنسی کے اتار چڑھاو جیسے مسائل - جو کہ پی بی سی کی سفارشات میں مناسب طور پر موجود ہیں، جو کہ مقامی صنعت کوعالمی سطح پر غیر مسابقتی بناتے ہیں،لیکن ان مسائل کو قریب ترین مدت میں حل نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ اصلاحات پر عمل درآمد میں ہمیشہ ایک شعور ہوتا ہے، تاہم تاخیر کی وجہ سے پی بی سی کی فہرست ایسی کاموں کی طرح لگتی ہے جو ہم نے نہیں کیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اس طرح کی مشکلات میں گھیرے ہیں، لیکن یہ سارے کام ہم اب بھی کر سکتے ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments