پنجاب میں گندم کے بحران کے لیے مسلم لیگ (ن) کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے جس کی وجہ موجود ہے،اور وہ اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں پائے گی۔ صرف عبوری حکومت پر 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا الزام لگانا، جب اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور پھر ناگزیر نقل و حمل کی وجہ سے خریداری کے ہدف کو آدھا کر دینا،ان چیزوں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، خاص طور پر پریشان حال کسانوں کو، کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ صوبے کا نگراں وزیر اعلیٰ ان کا اپنا تھا۔
اور اب، حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے، وہ احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ہراساں کر رہے ہیں اور گرفتار کر رہے ہیں، ان پر ایک سیاسی پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام لگا رہے ہیں، دوسری جانب گندم کی خریداری میں تاخیر کر رہے ہیں اور کسانوں کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مکمل طور پر غیر ضروری اور چونکا دینے والے پالیسی فیصلوں کے اس سلسلے کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ پنجاب، جو ملک کی روٹی کی ٹوکری ہے، مفلوج ہو چکا ہے، اور اس کی بنیادی خوراک دائو پر لگ سکتی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ کنبے کسان برادری کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے غیر ضروری طریقوں سے اس آبادیاتی عنصر کو پریشان کرنا نہ صرف پالیسی سازوں کی نااہلی بلکہ ان میں بنیادی سیاست کی تفہیم کی حیران کن کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے،اور یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ نہ صرف صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ اشتراک کی وجہ مل گئی ہے، بلکہ حکمران طبقے کے کچھ اراکین بھی جب اپنی حکومت کو کچھ بتانا چاہتے ہیں،بالخصوص اپنے انتخابی حلقوں میں عوام سے کئے گئے وعدوں کے تناظر میں اس مسئلے کے حوالے سے کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ محض سر کھجاتے ہی رہ جاتے ہیں۔
کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ کسان حکومت کی جانب سے رعایتوں( سبسڈیز) وغیرہ کے ان میٹھے وعدوں سے بہل جائیں گے جو حکومت ان پر نچھاور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لہٰذا اب حکومت کے ابتدائی دور میں ہی بہت سی غلطیاں ہوگئی ہیں جن کو حل کرنے کے لیے مزید غلطیاں کی جارہی ہیں۔
پنجاب حکومت سب سے پہلے ان مظاہروں کو سیاسی رنگ دینا بند کرے۔ اسے اپنی غلطیوں کو قبول کرنا چاہیے اور ایسے حل پیش کرنے چاہئیں جو ہر ایک کے لیے قابل قبول ہوں۔ بصورت دیگر زیادہ سے زیادہ لوگ اس حکومت کی پہلے سے ہی کمزور قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائیں گے،اوراس کے رہنمائوں کو،جو ہر الیکشن کے موقع پر انہی کسانوں کے پاس جاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ گرم صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جتنی وہ برداشت کر سکتے ہیں۔
عوام کو پہلے ہی کافی مسائل درپیش ہیں جن سے نمٹنا ہے۔ گزشتہ سالوں میں بے مثال مہنگائی اور بے روزگاری نے ملک کے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے شدید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ آخری چیز جس کی انہیں(حکومت کو) ضرورت ہے وہ ہے مزید نااہلی اور سیاسی لیڈروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز جو ان کی زندگیوں کو مزید دکھی کر دیں۔
لوگوں کو اس بحران کی اصل وجوہات کا علم ہونا چاہئے۔ جب ضرورت ہی نہیں تھی تو گندم درآمد کیوں کی گئی اور کسانوں سے سمجھوتہ کیوں کیا گیا؟ بغیر کسی وارننگ کے خریداری کا ہدف کیوں کم کیا گیا؟ خریداری کے طریقہ کار کو اچانک تحریری فارم سے آن لائن ایپ میں تبدیل کیوں کیا گیا جبکہ دیہی آبادی کا زیادہ تر حصہ ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہے؟ غیر منصفانہ طور پر کم کی گئی گندم کی مقدار کی خریداری میں بھی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟
ایک ایسے بحران میں پنجاب حکومت کا مکمل ہاتھ ہے جو کبھی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اب یہ اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کرنے سے انکار کر کے صورتحال کو مزید خراب کر رہے ہیں کیونکہ اطلاعات ہیں کہ کچھ نگران جلد ہی گندم کی ضرورت سے زیادہ درآمد پر کٹہرے میں آ جائیں گے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024