نجکاری کے بجائے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پر زور

04 مئ 2024

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مزدوروں کے عالمی دن پر حکومت پر زور دیا کہ وہ اہم سرکاری اداروں میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کو فروغ دینے کیلئے نجکاری کے بجائے متبادل طریقہ کاراختیار کریں ۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پی پی پی کا موجودہ حکومت کو سہارا دینے میں اہم کردار ہے جو بدلے میں نہ صرف اہم آئینی عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی بلکہ اب یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ وہ کسی وقت کابینہ کے کچھ اہم عہدے لینے کا انتخاب کر سکتی ہے تاہم اس بارے میں پارٹی چیئرمین کی رائے کافی وزن رکھتی ہے.

اپنی تقریر کے دوران انہوں نے پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز) کا ذکر کیا جسے فروخت کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور بولی لگانے کا عمل اس سال 3 جون سے شروع ہونا ہے۔ یہ تاریخ شاید مناسب سمجھی جاتی کیونکہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سیاسی غیر یقینی کافی حد تک کم ہوئی ہے ۔

اگرچہ فروخت کی کامیابی کا انحصار عالمی اور ملکی حالات پر منحصر ہےتاہم آئی ایم ایف پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ اسے قومی ملکیت میں لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے اثاثوں کی نجکاری کی جاسکتی ہے ، اس طرح، سیاسی طور پر، وہ تیسرے فریق کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں حکومتیں کچھ عوامی خدمات فراہم کر سکتی ہیں۔

مزید برآں عملی معنوں میں پی پی پیز معاہدے کے تحت تعاون کی ایک شکل کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے ذریعے سرکاری اور نجی شعبے مل کر کام کرتے ہوئے وہ حاصل کر سکتے ہیں جوتنہا نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ “(i) پی پی پی یونٹس یا پی پی پی کے قوانین حکمرانی کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی عزم اور وسیع تر اصلاحات کی ضرورت کا متبادل نہیں بن سکتے۔ (ii) پی پی پی کے قانونی فریم ورک کی ترقی اور پی پی پی یونٹس کی تشکیل کیلئے بالخصوص پروکیورنگ ڈپارٹمنٹس (لائن وزارتوں/محکموں/ایجنسیوں)، سیکٹر کی حکمت عملیوں اور اصلاحات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کام کرنے کی رفتار اور دلچسپی پیدا کرنے میں مدد مل سکے (iii) ایک مضبوط قانونی فریم ورک کے ساتھ مناسب ادارہ جاتی انتظامات کی ضرورت ہے۔

بہتر وسائل اور عملے سے آراستہ پی پی پی یونٹ وزارت خزانہ اور پروکیورنگ اداروں دونوں کے لیے ایک واضح کردار مضبوط منصوبے بنانے اور اس پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ ان اہم معاون عوامل کو حکومت نے ابھی تک وضع نہیں کیا ۔

اس وقت کے نگراں وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے 12 جنوری 2024 کو کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کر لیے گئے ہیں۔ پی آئی اے کے سیکریٹری راؤ محمد عمران کی جانب سے 26 مارچ کو اسٹاک ایکسچینج کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 25 مارچ 2024 کو ہونے والے اپنے 83ویں اجلاس میں تشکیل نو اور نجکاری کے لیے اسکیم آف ارینجمنٹ کی منظوری دی ہے۔ پی آئی اے اور اس کے ذیلی طریقہ کار کو ایس ای سی پی کے ذریعہ دائر کیا جائے گا۔

3 اپریل 2024 کو حکومت نے کم از کم 30 ارب روپے یا 100 ملین ڈالر کی مالیت کی منظوری دی۔ دوسرے لفظوں میں 3 جون 2024 کو بولی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ہموار عمل واضح طور پر حرکت میں ہے۔

خریدار کے لیے واحد رکاوٹ پی آئی اے کا 712.8 ارب روپے (گزشتہ سال جون کے آخر میں) کا مجموعی نقصان ہو گا۔

غزہ پر اسرائیلی جنگ اور یوکرین-روسی تنازعہ کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاری کا ماحول بدستور خراب ہے جب کہ ملکی حالات بھی بدستور خراب ہیں جس کی عکاسی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ سیکٹر کی جولائی تا فروری منفی 0.5 فیصد نمو سے ہوتی ہے۔

اگر اسٹیک ہولڈرز دوست ممالک کو ائرلائن خریدنے کے لیے راغب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کامیابی کے امکانات ہونگے۔ بصورت دیگر بہتر آپشن یہ ہوگا کہ بلاول کی تجویز کے مطابق پی پی پی طریقہ کار کو سپورٹ کیا جائے۔

بلاول نے پاکستان اسٹیل کو سندھ کو فروخت کرنے کی تجویز دی جس کو وفاق نے مسترد کردیا ۔ سال 2020 میں اس وقت کے سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ اربوں روپے مالیت کی اسٹیل ملز کی زمین پروفاق کی نظریں ہیں۔

انہو نے مزید کہا کہ سب کو یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ زمین سندھ حکومت کی ہے، ہم انہیں یہ زمین نہیں لینے دیں گے۔سندھ حکومت ماضی میں بھی نجکاری کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور اس بار بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم سرمایہ داروں کے نہیں محنت کشوں کے ساتھ ہیں۔

نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کوئی بھی ایسا اقدام جو تفصیلی تجرباتی مطالعہ اور معاون قانون سازی/ضابطے پر مبنی نہ ہو، فروخت کے خواہ کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہو، ناکامی کا باعث بنے گا۔ کون امید کرے گا کہ ایسے بڑے معاشی فیصلے لینے سے پہلے تجرباتی مطالعہ کیا جائے جس کے اس ملک کے سماجی و اقتصادی تانے بانے پر اثرات مرتب ہوں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Read Comments