آئی ایم ایف پروگرام کے دوران میکرو اکنامک حالات میں بہتری آئی ہے۔ مالی سال کی دوسری ششماہی میں مسلسل ریکوری کے پیش نظر مالی سال 24 میں 2 فیصد کی نمو متوقع ہے۔
مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کے 1.8 فیصد کے بنیادی سرپلس کے ساتھ مالیاتی پوزیشن مستحکم ہوتی جا رہی ہے، جو تخمینوں سے بہت آگے ہے اور پاکستان مالی سال 24 کے آخر میں جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے ہدف پرائمری سرپلس کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
افراط زر، جب کہ اب بھی بلند ہے،لیکن مسلسل کم ہورہا ہے، جس کے مناسب طور پر سخت مالیاتی پالیسی برقرار رکھنے کے ساتھ جون کے آخر تک تقریباً 20 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
جاری ٹھوس پالیسیوں اور اصلاحاتی کوششوں کے مطابق افراط زر کو اسٹیٹ بینک کے ہدف پر واپس آنا چاہیے اور درمیانی مدت کے دوران ترقی میں مسلسل اضافہ ہونا چاہیے۔ مجموعی ذخائر تقریباً 8 ارب ڈالر تک بڑھ گئے ہیں، جو کہ پروگرام کے آغاز میں 4.5 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، اور درمیانی مدت میں مزید اضافے کا امکان ہے ،آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا دوسرا اور حتمی جائزہ 29 اپریل کو مکمل کرلیا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) قرض کا اپنا دوسرا جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے، جس کے بعد خصوصی ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) 828 ملین کا اجرا کردیا گیا، جو کہ 1.1 ارب امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
اس قسط کے ساتھ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرلیا اور 2.250 ارب ایس ڈی آر، تقریباً 3 ارب امریکی ڈالر کی کل رقم حاصل کر لی ہے۔ در حقیقت آئی ایم ایف پروگرام نے نہ صرف ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد کی بلکہ اندرونی اور بیرونی عدم توازن کے مسئلے کو کامیابی کے ساتھ حل کرتے ہوئے معیشت کو بھی مستحکم کیا ہے، جیسا کہ آئی ایم ایف کی مذکورہ بالا پریس ریلیز میں بیان کیا گیا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ پروگرام کئی اہم ترجیحات پر مرکوز ہے۔ اول، ضروری مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کو لاگو کرتے ہوئے رواں سال کے بہتر بجٹ کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا، دوم، معاشرے کے کمزور طبقات کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے اہم سماجی اخراجات کا تحفظ اور سوم، بیرونی دبائو سے نمٹنا اور غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ میں مناسب اقدامات کرکے زرمبادلہ کی کمی کو دور کرنا۔
مزید برآں، پروگرام نے سخت مالیاتی پالیسی کے ذریعے افراط زر کے خاتمے کے اقدامات کئے اور اصلاحات کو آگے بڑھایا، توانائی کے شعبے کی بہتری کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور ریاستی ملکیتی اداروں (SOEs) کی نگرانی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی۔
آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیاب تکمیل نے پاکستان کو اہم مالی امداد تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے، جس سے اس کی معاشی بحالی اور ترقی کی کوششوں میں مدد ملی ہے۔ پروگرام کے تحت حاصل ہونے والی پیشرفت کو برقرار رکھنے اور طویل مدتی معاشی استحکام کو فروغ دینے کے لیے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا، اصلاحات کا نفاذ، اور دانشمندانہ مالیاتی پالیسیوں پر عمل کرنا ناگزیر ہوگا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کی آبادی اور معاشی اشاریوں میں اہم مشاہدات فراہم کئے ہے۔ 231.6 ملین کی کل آبادی کے ساتھ 1,446.3 امریکی ڈالر فی کس جی ڈی پیہے، پاکستان کا خصوصی ڈرائنگ رائٹ کوٹہ 2,031 ملین ہے، اور اس کی غربت کی شرح 21.9 فیصد ہے، جبکہ ٹیکسٹائل اہم برآمدی شعبہ ہے۔ معاشی کارکردگی کے لحاظ سے، مالی سال 2023 کے لیے فیکٹر لاگت پر پاکستان کا حقیقی جی ڈی پی منفی 0.2فیصد تھا، جو مالی سال 2024 میں 2.0 فیصد اور مالی سال 2025 میں 3.5 فیصد تک بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مالی سال 2024 کے لیے بے روزگاری کی شرح 8 فیصد اور 2025 کے لیے 7.5 فیصد متوقع ہے۔ مالی سال 2024 اور 2025 کے لیے مہنگائی اوسطاً 24.8 فیصد اور 12.7 فیصد رہنے کی توقع ہے، مدت کے اختتام کے تخمینوں کے مطابق بالترتیب 19.6فیصد اور 9.5فیصد رہے گی۔ آئی ایم ایف نے حکومتی مالیات کو نمایاں کیا ہے، جس میں مالی سال 2023 میں محصولات اور گرانٹس کے جی ڈی پی 11.4 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 2024 اور مالی سال 2025 میں بالترتیب 12.5 فیصد اور 12.4 فیصد ہونے کا امکان ہے۔
تاہم، حکومتی اخراجات اب بھی زیادہ ہیں، جو مالی سال 2024 اور مالی سال 2025 کے لیے بالترتیب 20.0 فیصد اور 19.8فیصد کے تخمینے کے ساتھ جی ڈی پی کے 19.2فیصد سے زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف نے مالی سال 2024 اور مالی سال 2025 کے لیے بجٹ بیلنس بشمول گرانٹس کی پیش گوئی -7.4 فیصد کی ہے، جب کہ گرانٹس کے علاوہ بیلنس بالترتیب -7.5فیصد اور -7.4 فیصد ہے۔
اسی طرح، بنیادی بیلنس، بشمول گرانٹس اور اس کو چھوڑ کر، ان سالوں کے لیے 0.4 فیصد متوقع ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کو چھوڑ کر پاکستان کا کل سرکاری قرضہ رواں مالی سال کے لیے 69.6 فیصد اور مالی سال 2025 کے لیے 68.1 فیصد کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بیرونی عام حکومتی قرضوں کا تخمینہ 26.2فیصد اور 25.0فیصد ہے، جب کہ اندرونی قرضے 43.3 فیصد پر رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض سمیت، مالی سال 2024 اور مالی سال 2025 کے لیے عام حکومتی قرضہ بالترتیب 72.1 فیصد اور 70.0فیصد کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ عام حکومتی اور حکومت کی طرف سے گارنٹی شدہ قرض، بشمول آئی ایم ایف کے قرض کے ان سالوں کے لیے 76.0فیصد اور 73.6فیصد ہونے کی توقع ہے۔
مختلف چیلنجوں کے علاوہ، آئی ایم ایف نے اپنی پریس ریلیز میں تسلیم کیا ہے کہ 2023 کے پروگرام کے دوران پاکستان کے مسلسل پالیسی اقدامات کے معاشی استحکام کی بحالی میں مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
معتدل ترقی کے ساتھ بیرونی دباؤ کا خاتمہ اور افراط زر میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ یہ اب بھی نسبتاً زیادہ ہے۔ بقیہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، پاکستان کو دانشمندانہ میکرو اکنامک پالیسیوں پر قائم رہتے ہوئے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو نافذ کرتے ہوئے اس استحکام سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس نقطہ نظر کا مقصد مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں محصولات کی کارکردگی اور وفاقی اخراجات پر پابندی کے ذریعے ایک اہم سرپلس حاصل کیا ہے۔ ان سرپلسز کو برقرار رکھنے کے لیے آمدنی کو بڑھانے کی کوششوں کے ساتھ اخراجات میں نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔
توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو مستحکم کرنے میں بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور وصولی کی کوششوں میں اضافہ شامل ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکسچینج مارکیٹ میں بہتری کے ساتھ ساتھ افراط زر کے معتدل ہونے تک سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھے گا۔
آئی ایم ایف توقع کرتا ہے کہ مضبوط، جامع ترقی کے حصول کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کو تیز کرنا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بڑھانا شامل ہے۔ ترجیحات میں ایس او ای اصلاحات، گورننس کی مضبوطی، اور موسمیاتی تبدیلی کیلئے خود کوتیار کرنا شامل ہیں۔ موجودہ حکومت پاکستان میں معاشی ترقی کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اور دیگر ایس او ایز کی نجکاری جیسے اقدامات جاری ہیں۔ تاہم، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ، ریونیو کو بڑھانے کا اہم چیلنج برقرار ہے،ایف بی آر بنیادی ریونیو اتھارٹی کے طور پر، ملک کی اصل آمدنی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں ناکام رہا۔ تنقید کا رخ ان پیچیدہ اور غیر محدود آڈٹ کے اختیارات کی طرف ہے جو ٹیکسیشن افسران کو مختلف ٹیکس کوڈز کے تحت دیے گئے ہیں، جو ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے میں رکاوٹ ہیں۔
ٹیکس انٹیلی جنس، معلومات اور انفورسمنٹ یونٹس کی موجودگی کے باوجود ایف بی آر ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے کی کوشش کرنے کےبجائے بنیادی طور پر موجودہ ٹیکس دہندگان سے زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ طریقہ کار مالی استحکام حاصل کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ایف بی آر کو ریونیو کی وصولی کے لیے زیادہ فعال اور جامع حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے، جس میں ٹیکس کی تعمیل کے اقدامات کو بڑھانا اور وسیع تر شراکت کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکس کے ضوابط کو آسان بنانا شامل ہے۔
ٹیکس وصولی کے عمل کے دوران ایف بی آر کے اندر شفافیت اور جوابدہی نے اہم خدشات کو جنم دیا ہے۔ ریونیو اکٹھا کرنے کی کوششوں میں ناکامیاں واضح ہو گئی ہیں، خاص طور پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے متعلق ایک حالیہ اسکینڈل نے صورتحال کو نمایاں کیا، جس میں ایف بی آر کی نااہلی اور بددیانتی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اس نازک موڑ پر جہاں حکومت ریونیو کی وصولی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، وہیں ایف بی آر حکام کی جانب سے فراہم کردہ مبینہ طور پر گمراہ کن معلومات سے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں نے غلط اعداد و شمار پر انحصار کیا ہے جس میں متنازعہ رقم بھی شامل ہے۔ 2.7 کھرب روپے مبینہ طور پر قانونی چارہ جوئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تاہم، ان تنازعات کی ایک قابل ذکر تعداد میں پہلے ہی ٹیکس دہندگان کے حق میںفیصلہ کیا جاچکا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اور ایف بی آر کے اندر شفافیت اور جوابدہی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ نگرانی کے طریقہ کار کو مضبوط بنانا اور ٹیکس وصولی کے عمل کو بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کا نفاذ کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔