سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا انتہائی اہم اور معلومات افزا بیان کہ ایک اور بیل آؤٹ پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے پاس واپس جانا حکومت کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے، اگرچہ بنیادی طور پر غلط نہیں، لیکن دو فوری سوالات کو جنم دیتا ہے۔
ایک، کیا یہ سب انہوں نے حکومت کو اس وقت بتایا تھا جب ان کی اپنی پارٹی اقتدار میں تھی؟ اور کیا وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ وہ اسی انتظامیہ میں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہ چکے ہیں؟
زیادہ تر پاکستانی پوچھتے ہیں کہ کیا قرض لی گئی رقم میں سے کسی کو کبھی آمدنی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جیسا کہ انہوں نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پوچھا۔ اورعوام کو اس وقت ہی ایماندارانہ جوابات ملتے ہیں جب شاہد عباسی جیسے سیاست دان اقتدار میں نہیں رہتے اورآئی ایم ایف بیل آؤٹ کی ضرورت کے بارے میں اپنی سابقہ پوزیشنوں پر مکمل یو ٹرن لے لیتے ہیں۔ لہٰذا، اقتدار سے باہر آکر لیڈر کا آئی ایم ایف پروگرام کو رد کرنا ایک پہلے سے موجود مضبوط رجحان کا تسلسل ہے۔
اور قابل غور بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نہ صرف اقتدار کا حصہ نہیں ہیں بلکہ اب اپنی پرانی پارٹی میں بھی موجود نہیں ہیں، تو ایسے میں لوگوں کو یہ سوچنے سے کیا روکنا کہ وہ بساط پر کھڑے کئی پیادوں میں اکیلے نہیں ہیں؟ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دبایا جا رہا ہے اور واضح طور پر متنازعہ انتخابات کے بعد حکومت قائم ہوئی ہے،تو ایسی صورتحال میں نئی پارٹیاں جنم لے رہی ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان بہت سے بیل آؤٹ پروگراموں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ شاہد عباسی یہ بات زیادہ تر پاکستانیوں سے بہتر جانتے ہوں گے کیونکہ وہ حکومت میں تھے جب ان میں سے بہت سے معاہدے پر دستخط کیے گئے اور پھر آدھے راستے میں ہی معاہدے ختم کردئیے گئے۔
معیشت کو بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت تھی، لیکن ان کو کبھی بھی صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہمیشہ ان پروگراموں پر تنقید کرتی ہے اور حکومت ہمیشہ یہ پروگرام لینا چاہتی ہے (پچھلی انتظامیہ کو تمام ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ)، اور اس لیے ہم چکروں میں گھومتے رہتے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ ملک کو مالی گنجائش بڑھانے اور دیوالیہ سے بچنے کیلئے جلد از جلد نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے۔ جس میں دیوالیہ سے بچنا زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ یہاں کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، واحد چیز جو ہمارے قرضوں کی ادائیگی کو جاری رکھے گی وہ ہے ایک فعال آئی ایم ایف پروگرام۔ بصورت دیگر، اگلے سال تقریباً 30 ارب ڈالر واجب الادا ہیں، اور اگلے دو سالوں میں مزید بہت کچھ ادا کرنا پڑے گا۔
چونکہ ہمارے پاس ادائیگی کے لیے درکار ذخائر نہیں ہیں، اس لیے ڈیفالٹ کا عمل شروع ہو جائے گا، عالمی منڈیوں میں پاکستان کا اعتماد ختم ہو جائے گا، اور معیشت تباہ ہو جائے گی۔
اس طرح کے تمام مسائل سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ایک نمائندہ حکومت دی جائے جو انہیں طویل المدتی اور نہ ختم ہونے والے معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے مشکل فیصلے کر سکے۔
اس سے عوام کے منتخب لیڈروں کو پارلیمنٹ میں بٹھانے کے متعدد فوائد حاصل ہوں گے، حکومت کو قانونی حیثیت ملے گی، اور سیاست دانوں کے غیر ضروری شور کو کم کیا جاسکے گا جو موقع کی مناسبت سے اپنی دھن تبدیل کرلیتے ہیں۔
اس سے ہر ایک کو مستقبل میں آئی ایم ایف کے پروگراموں پر بات چیت کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی حکومتی صلاحیت پر بہت زیادہ اعتماد ہو گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024