ملک میں سب سے بڑے کارپوریٹ سیکٹر کے ایڈووکیسی پلیٹ فارم پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکس کی بنیاد بڑھانے کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈیٹا کی مائننگ کرے۔
پی بی سے نے مالی سال 24-25 کے آئندہ بجٹ سے متعلق حکومت کو تجاویز کی فہرست ارسال کی ہے۔
جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکس کے نظام کے اندر بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی شرح پیدوار کے ساتھ ساتھ محصولات میں بھی اضافہ ہوا۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ ٹیکسز سادہ، قابل تخمینہ اور کاروباری ترقی میں بھی مدد گار ثابت ہوں۔
پی بی سی نے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع تر کرنے کی کوشش میں حکومت سے ٹیکس نا دہندگان اور اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر ادا نہ کرنے والوں کی شناخت کیلئے ایف بی آر کے ڈیٹا کی مائننگ کا مطالبہ کیا ہے۔
پی بی سی کا کہناہے کہ ایف بی آر کو مختلف اشکال میں مالیاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوئی ہے جس میں مختلف سیکشنز کے مطابق ود ہولڈنگ ٹیکس اکٹھا کرنے والے ایجنٹوں کی طرف سے جمع کرائے گئے ماہانہ گوشوارے بھی شامل ہیں۔
سیکشن 165A، 165B، 175A , نادرا، ایف آئی اے، بیورو آف امیگریشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ ریکارڈ کے تحت بیان کے مطابق معلومات بھی دستیاب ہیں۔ یہ نئے ٹیکس دہندگان کو نیٹ میں لانے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر نے نان فائلرز کی جانب سے گاڑیوں، غیر منقولہ جائیداد اور اسٹاک مارکیٹ میں حاصل ہونے والے منافع پر ادا کیے گئے ٹیکس کے بارے میں ڈیٹا بھی اکٹھا کیا ہے۔
دریں اثنا فائلرز اور نان فائلرز کو یکساں مواقع فراہم کرنے سے متعلق پی بی سی کا نقطہ نظر ہے کہ فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور نان فائلرز کے لیے ٹیکس دہندگان پر ٹیکس شکایات کا بوجھ کم کرنے کے لیے اس میں نمایاں اضافہ کیا جانا چاہیے۔
پی بی سی نے نان فائلرز کے لیے ودہولڈنگ ریٹس میں مرحلہ وار اضافہ کرنے کی تجویز بھی دی۔
پی بی سی نے کہا کہ ایف بی آر کی وضع کردہ ویلیوز پر نظر ثانی کی جانی چاہیے تاکہ کم از کم 80 سے 90 فیصد مارکیٹ ویلیو کی عکاسی ہو سکے۔
کونسل نے کہا کہ درآمد کنندگان کی طرف سے پی او ایس کے غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے جو خوردہ فروش کی جعلی رجسٹریشن پروفائل استعمال کرتے ہیں۔
پی بی سی کے مطابق ایسی کمپنیوں، جن کی درآمدات ان کی پیداوار کی نسبت 70 فیصد سے زیادہ ہیں اور جن کے پاس پی او ایس کی سہولت ہے، کیلئے درج ذیل شقوں کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں کو روکا جاسکے۔ (a) اپنی پرچون کی دکانوں کی تعداد ظاہر کریں، (b) تمام ریٹیل اسٹورز کے لیے مربع فٹ ، تفصیلی پتہ اور گوگل پن لوکیشن فراہم کریں، (c) ماہانہ سیلز ٹیکس ریٹرن کے ساتھ ہر دکان کے فروخت کا حساب یا حجم اور انوائسز کی رپورٹ لی جائے۔
مزید برآں فلائنگ انوائس کے اجراء کی حوصلہ شکنی اور فروخت کی مناسب رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے مزید ٹیکس کی شرح کو 1 فیصد یا زیادہ سے زیادہ 1.5 فیصد تک کم کیا جانا چاہیے۔
پی بی سی نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے چھٹے شیڈول میں ٹیبل 1 کے اس سیریل نمبر 151 کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو قبائلی علاقوں میں صنعتی درآمدات پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی اجازت دیتا ہے۔
کونسل نے کہا کہ تجارتی درآمد کنندگان کی جانب سے بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ ملکی صنعت کو تباہ کر رہی ہے۔
اس غیر قانونی فعل کا مقابلہ کرنے کیلئے پی بی سی نے تجویز پیش کی کہ وہ ویلیوز عوامی سطح پر دستیاب کی جانے کی ضرورت ہے جس پر پرال (پاکستان ریونیو آٹومیشن پرائیوٹ لمیٹڈ) کے ذریعے درآمدی کھیپ کلیئر کی جاتی ہے۔
پی بی سی کے مطابق حکومت پاکستان چین و دیگر بڑے تجارتی شراکت داروں سے ایف ٹی اے (فری ٹریڈ ایگریمنٹ) اور نان ایف ٹی اے دونوں درآمدات کیلئے الیکٹرانک ڈیٹا انٹرچینچج( ای ڈی اے) پر اصرار کرے۔
پی بی سی کا کہناہے کہ مستقبل میں پی ٹی اے/ایف ٹی اے اور بڑے تجارتی شراکت دار ممالک سے درآمدات کیلئے ای ڈی آئی کی شرط لازمی قرار دی جائے۔
پی بی سی نے تجویز پیش کی کہ کسٹم ایکٹ 1969 کی شق S.25(A) اور 25(D)میں ترمیم کی جائے تاکہ مقامی مینو فیکچررز کو آئی ٹی پی ٹھیک کرنے میں حصہ لینے کی اجازت مل سکے۔
کونسل نے کہا کہ تجارتی درآمد کنندگان کی جانب سے محض نمائندگی دینے سے، جوکہ موجودہ وقت میں بھی ایسی ہی ہے، متعصبانہ فیصلوں کا خطرہ لاحق ہے جس سے مجموعی ٹیکس/ڈیوٹیز کی وصولی کے ساتھ ساتھ مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچے گا۔
پی بی سی کے مطابق مجوزہ ترمیم کی بدولت مقامی مینوفیکچررز سے زیادہ ان پٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی، کسی بھی برانڈ کی قیمت مالکان، جن کے پاس قانون کے مطابق برانڈز کی رجسٹریشن ہے ،کے ساتھ مشاورت کے بعد جاری کی جائے۔
سپر ٹیکس
کونسل کے مطابق فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے دستاویزی شعبے پر طور پر لگائے گئے سپر ٹیکس کے اطلاق سے متعلق وقت یا ٹائم لائن کی وضاحت کی جانی چاہیے۔
کونسل نے مزید کہا کہ کسی مخصوص ٹائم لائن کے بغیر سپر ٹیکس کی وصولی کارپوریٹ ٹیکس کی موجودہ 29 فیصد کی شرح میں اضافہ ہے۔
پی بی سی نے کہا کہ سپر ٹیکس کا اطلاق پوری آمدنی پر مخصوص خاص فیصد کے اطلاق کے بجائے پروگریسو ٹیکس کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔
مزید برآں دوبارہ سرمایہ کاری یا منافع کی حوصلہ افزائی کے لیے تمام صنعتوں یا کم از کم ان صنعتوں کے لیے سپر ٹیکس کو ختم کیا جانا چاہیے جو برآمدات یا درآمدی متبادل کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔