اگر پاکستان ایک شخص ہوتا تو شاید اسے بائی پولر ڈس آرڈر کا مرض تشخیص ہوتا۔
خلیجی دارالحکومتوں کے دورے، موسم بہار کے اجلاسوں میں شاندار پرفارمنس، واشنگٹن میں ٹیڈ ٹاک کے دوران نصیحتیں کرنا۔ پاکستان کی میکرو اکنامک سمت پر مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تجارتی مفادات بیرونی محاذ پر اچھی خبروں کے لیے اتنے بے چین ہیں کہ شراکت داروں کی طرف سے دوستانہ انداز میں آنکھ جھپکنا بھی ان کے دلوں کو دوڑ دے گا۔
یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ آیا توانائی کی اصلاحات پر کوئی حقیقی پیش رفت ہوئی ہے، یا مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت کا روڈ میپ کیا ہے۔ کیونکہ آخر کار سپر ہیروز کی ایک زبردست ٹیم نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی ہے، اور اب ٹاؤنسویل کا شہر ایک بار پھر محفوظ ہو جائے گا۔
تنازعات میں گھری ہیٹی اور شام جیسی ناکام ریاستوں کے علاوہ پاکستان اب بھی مہنگائی کی بلند ترین شرح کے ساتھ سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ تازہ ترین ہیڈ لائن ریڈنگ جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہے، جو ہندوستان سے 5 گنا زیادہ اور بنگلہ دیش سے دوگنا ہے جبکہ افغانستان کا تو ذکر ہی نہ کریں،کیونہ کہ وہاں فروری 2024 تک مائنس دس فیصد پر موجود تھا (بظاہر، اسمگلنگ پر پابندی نے مہنگائی کو کسی حد تک کم کیا، لیکن مغربی سرحد کے پار اسے مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے)۔
دنیا بھر کے مرکزی بینکوں میں شرح سود کو کم کرنے کے لیے ایک وسیع تر ہچکچاہٹ برقرار ہے، شرح سود میں نرمی کب شروع ہو سکتی ہے اس پر رہنمائی کی غیر موجودگی کی وجہ سے صورتحال بدتر ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان دنیا کو مانٹری پالیسی میں نرمی کے اگلے عظیم دور میں لے جانا چاہتا ہے۔ کوئی بات نہیں کہ افراط زر اب بھی اسٹیٹ بینک کے ہدف کی حد سے 13 فیصد زیادہ ہے۔ کوئی بات نہیں کہ تازہ ترین ماہانہ اعداد وشمار نے غیر موافق صورتحال کو واضح کردیا ہے۔
بحث کا مرکز 12 ماہ کی مہنگائی کی پیشن گوئی ہے، جو کہ ابتدائی طور پر موافق دکھائی دے سکتی ہے لیکن تیل اور توانائی کی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ مانیٹری پالیسی میں قبل از وقت نرمی سے سرمائے کے اخراج میں تیزی، شرح مبادلہ کے دباؤ میں اضافہ اور درآمدی افراط زر کے بڑھنے کے خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ایم پی سی کے پاس اب بھی وفاقی بجٹ پر وزیبیلٹی کا فقدان ہے، اورپتا نہیں ک آیا یہ استحکام جاری رہے گا یا پھر صورتحال سبنھالنے کیلئے سرمائے کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اس بات پر اصرار کرنا کہ وفاقی حکومت سیاسی طور پر اہم تجارتی مفادات سے طاقت حاصل کرکے مایوس نہیں کرے گی، 75 سالہ سیاسی تاریخ سے انکار کے مترادف ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ایک اقلیتی حکومت قائم ہے۔
یہاں سے افراط زر کے استحکام کا راستہ توانائی کی قیمتوں میں کمی پر منحصر ہے۔ پھر بھی، فیصلہ سازوں کو ابھی تک اس مشکل مقصد تک پہنچنے کے لیے عوامی طور پر کوئی راستہ نکالنا ہے۔ یہ یقین کرنا اتنا مشکل کیوں ہے کہ توانائی کے ٹیرف میں اضافے کا ایک اورمراحلہ اگلے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط میں سرفہرست نہیں ہوگا؟ پورا ملک توانائی کی قیمتوں میں کمی کے وقفے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن ہمارے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے،اسٹیٹ بینک کو یہ مشورہ دیا جائے گا کہ اس صورتحال کو شرح سود میں کمی کا بہترین موقع نہ سمجھیں۔
یہ غیر یقینی صورتحال براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) تک پھیلی ہوئی ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر عرب سرمایہ کاروں کیلئے زراعت میں سرمایہ کاری کے مواقع اتنے ہی پرکشش ہوتے تو بہت سے مقامی سرمایہ کار پہلے ہی قطار میں کھڑے ہو چکے ہوتے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مصر کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب ایکویٹی کا فائدہ داؤ پر لگ جاتا ہے، تو خلیجی ریاستوں سے سرمایہ کاری کے بہاؤ کو عملی شکل دینے میں وقت لگ سکتا ہے۔
اگرچہ فوری ریلیف کی کشش دلکش ہو سکتی ہے، مگر ایم پی سی کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ اس مرحلے پر شرح سود میں کمی کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب بنیادی شرح 22 فیصد پر ہو تو 100 بی پی ایس تک کی کمی واقعی تجارتی اور صنعتی قرض لینے والوں کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوگی۔ اس سے ایل ایس ایم کی نمو کو راتوں رات بڑھانے کے لیے نہ صرف قرض لینے کی لاگت زیادہ رہے گی۔ بلکہ کمرشل بینکوں کی مختصر اور طویل مدتی آئوٹ اسٹینڈنگ ایڈوانس پر بی اثرانداز ہوگی۔
دریں اثنا، اسٹیٹ بینک کی موجودہ سہ ماہی ختم ہونے سے پہلے جون میں ایک اور ایم پی سی میٹنگ شیڈول ہے۔ اس وقت تک، وفاقی بجٹ بھی پیش کیا جا چکا ہو گا، اور ٹائم لائنز بھی آئی ایم ایف پروگرام پر آگے بڑھ چکی ہوں گی، اس بات پر زیادہ وزیبیلٹی حاصل ہوگی کہ آیا دنیا بھر کے مرکزی بینک کمی کا انتخاب کرتے ہیں یا نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی صورتحال دیکھنے کیلئے مزید دو ماہ بھی ملیں گے، امید ہے کہ مہنگائی بیس فیصد سے کم ہوجائیگی۔
فی الوقت صرف ایکویٹی مارکیٹ کے سرمایہ کار شرح سود میں کمی کے لیے بے چین ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ 100 بی پی ایس کی کمی ان کیلئے کافی نہیں ہوگی۔ اگر اسٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی میں نرمی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، تو یہ مارکیٹ کے شرکاء کے لیے ایک اہم اشارہ ہو گا۔ ان کے منہ کو خون لگ جائیگا اور وہ مزید کمی کی توقع کرینگے۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی موجودہ قیادت کو 2020-22 کے سبق کو یاد رکھنے کا مشورہ دیا جائے گا اور مانیٹری پالیسی میں قبل از ضرورت سے زیادہ نرمی معیشت کو تباہ کر سکتی ہے۔