پاکستان اور ایران نے آزادانہ تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو تیزی سے حتمی شکل دینے، اپنے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے تعاون بڑھانے پراتفاق کیا ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے تین روزہ سرکاری دورے کے اختتام پر بدھ کو جاری مشترکہ بیان کے مطابق، دونوں فریقین نے اگلے پانچ سالوں میں اپنی دوطرفہ تجارت کو 10 ارب امریکی ڈالر تک بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت پر 22 سے 24 اپریل 2024 کے دورے کے دوران صدر رئیسی کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا جس میں ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کے علاوہ کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
صدر رئیسی نے وزیر اعظم شہباز سے وفود کی سطح پر بات چیت کی۔ ان مذاکرات کے دوران فریقین نے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور باہمی تشویش کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دورے کے دوران متعدد مفاہمت ناموں/ معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔
دونوں فریقوں نے اعلیٰ سطحی دوروں کے ذریعے باہمی روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا،“ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں فریقوں نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا اور اپنی سرحد کواقتصادی منصوبوں کے ذریعے امن اورخوشحالی کی سرحد میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ جس میں مشترکہ سرحدی منڈیوں کا قیام، اقتصادی فری زونز، اور نئی جگہوں سے سرحدیں کھولنا شامل ہیں۔
انہوں نے توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا بھی اعادہ کیا جس میں بجلی کی تجارت، پاور ٹرانسمیشن لائنز اور ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن پروجیکٹ شامل ہیں۔ “دونوں رہنماؤں نے اگلے پانچ سالوں میں اپنی دو طرفہ تجارت کو دس ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقوں نے ایک طویل مدتی پائیدار اقتصادی شراکت داری اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل کی ضرورت پر زور دیا، خاص طور پر ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے مقصد سے، دونوں فریقوں نے ایف ٹی اے کو تیزی سے حتمی شکل دینے اور سالانہ دو طرفہ سیاسی مشاورت (بی پی سی) اور جوائنٹ بزنس ٹریڈ کمیٹی (جے بی ٹی سی) کے اگلے اجلاسوں کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے 22ویں دور کے انعقاد پر اتفاق کیا۔
انہوں نے اقتصادی تعاون کو تیز کرنے کے لیے اقتصادی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے وفود کے باقاعدہ تبادلے پر بھی اتفاق کیا۔ ٹی آئی آر کے تحت ”ریمدان بارڈر پوائنٹ“ کو بین الاقوامی سرحدی کراسنگ پوائنٹ کے طور پر اعلان کرنے اور باقی دو سرحدی غذائی منڈیوں کو کھولنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ میکانزم کو مکمل طور پر فعال کرنے پر اتفاق رائے پایا گیا، خاص طور پر جاری باہمی کوششوں کے تحت، جیسے کہ سرحدی غذائی منڈی، جو مقامی باشندوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی،اس کے ساتھ سرحدی سیکورٹی کو بڑھانے کی طرف قدم بڑھایا جائے گا۔
دونوں پڑوسی اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے، دونوں فریقوں نے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ اور تاریخی مذہبی مقامات کی سیاحت کو بڑھا کر ان رشتوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان ایران مشترکہ سرحد ”امن اور دوستی کی سرحد“ ہونی چاہیے، دونوں اطراف نے دہشت گردی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون اور تبادلہ خیال کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا۔
پاکستان اور ایران نے دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ وسیع تر خطے کے ساتھ روابط کو فروغ دینے کے لیے اپنے اپنے جغرافیائی مقامات کو استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) اور اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے ارکان کے طور پر، دونوں ممالک نے رابطے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار کیا۔ دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتے ہوئے، دونوں فریقوں نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی علاقائی امن و استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور خطے کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں بالخصوص رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کو مکمل طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ دو طرفہ ادارہ جاتی میکانزم سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں اطراف نے سرحدی علاقوں میں سیکورٹی کے ماحول کو بہتر بنانے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع میں اضافہ کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا گیا۔
علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا نوٹس لیتے ہوئے، دونوں فریقوں نے مشترکہ چیلنجوں کا باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا۔
دونوں فریقوں نے مسئلہ کشمیر کو اس خطے کے عوام کی مرضی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق مذاکرات اور پرامن طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
دونوں فریقوں نے فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیلی حکومت کی جارحیت اور مظالم کے ساتھ ساتھ غزہ کی غیر انسانی ناکہ بندی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئی ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی شدید مذمت کی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محصور لوگوں تک بلا روک ٹوک انسانی رسائی، بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے فلسطین کے عوام کی امنگوں پر مبنی منصفانہ، جامع اور پائیدار حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024