حالیہ برسوں میں علاقائی تنازعات عالمی معیشت پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ جس کی شروعات 24 فروری 2022 کو یوکرائن پر روسی حملے سے ہوئی جس نے باقی دنیا کو یوکرائنی اناج کی سپلائی سے محروم کردیا،جس سے دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ جس کے بعد 7 اکتوبر 2023 کو حماس کا اسرائیل پر حملہ اور اسرائیل کا غیر متناسب ردعمل سامنے آیا، جس کی نتیجے میں آج تک 1400 سے زیادہ اسرائیلی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں فوجی بھی شامل ہیں جبکہ 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید (ان میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں) اور 76,664 زخمی ہوئے ہیں، جس کے ردعمل میں حوثیوں کی طرف سے خام تیل کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی جانے لگی، جس نے انشورنس کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور اس وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ پھر 14 اپریل 2024 کو دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل کے خلاف حملے کئے، رپورٹس کے مطابق اسرائیل اس حملے کا جواب دے گا (حالانکہ اس نے پہلے ہی ایران پر ایک محدود حملہ کیا ہے)
امریکہ اور اتحادیوں نے ایران کے حملوں کو ناکامی قرار دیا حالانکہ چیتھم ہاؤس کا کہنا ہے کہ ایران کے نقطہ نظر سے اس کے اسٹریٹجک ہدف کے مطابق ایران کا حملہ بڑی حد تک کامیاب رہا، جس نے ایرانی ڈیٹرنس کو تقویت دی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نئے قواعد لکھے۔
ایران نے اپنے حملے میں مخالفین کی توقع سے زیادہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ایران نے اسرائیل اور امریکہ کو اپنے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، خاص کرجب ایران نے اپنا حملہ کرنے کے لیے اس کا تقریباً دسواں حصہ خرچ کیا۔
واشنگٹن میں مالی مشکلات اور کشیدہ سیاسی ماحول میں اسرائیل کیلئے امریکی فوجی امداد میں اضافے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس بات کا اب حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اب امریکی کانگریس نے 17 اپریل کو تین بلوں کی منظوری دیدی، جس میں اسرائیل کے لیے 26.38 بلین ڈالر کا امدادی پیکج بھی شامل ہے۔
چیتھم ہاؤس کا مزید کہنا ہے کہ “ایران نے نپولین کے اس فرمان کی خلاف ورزی کی کہ ’جب آپ کا دشمن غلطی کر رہا ہو تو کبھی مداخلت نہ کریں‘۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دے کر بہت بڑی اور ناقابل معافی غلطیاں کر رہا تھا لیکن ایران کے حملے کے بعد مغرب تل ابیب کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
یہ رائے زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک اہم معاملے کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا۔ اور وہ ہے امریکا اور یوروپی یونین کے انتخابات جبکہ برطانیہ اور جاپان میں بھی اس سال انتخابات متوقع ہے جن کا تاحال شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت کیلئے ووٹروں کی حمایت برقرار رکھنے کیلئے اہم عنصر ترقی یافتہ معیشت میں قرض لینے کی لاگت ہوتی ہے (بہت سے لوگ رہن اور/یا کار کے قرضوں پر سود ادا کرتے ہیں) کیونکہ یہ ایک عام گھریلو فرد کی لیکویڈیٹی کا تعین کرتا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی میں کمی کے تخمینے پر نظرثانی کی گئی اور اس لیےشرحیں برقرار رکھنے کی بازگشت نہیں آئی۔(i) امریکہ میں فیڈرل ریزرو کا 20 مارچ 2024 کو پالیسی ریٹ 5.25 سے 5.5 فیصد کی 25 سال کی بلند ترین سطح پر تھا۔ جو وسیع معیشت پر مہنگائی کم کرنے کا اندازہ کرتا ہے۔
ایران کے حملے کے بعد، تیل کی قیمتوں میں اضافہ امریکی مرکزی بینک کو سال کے باقی حصوں میں تین بار شرح کم کرنے کے اپنے وعدے سے مکرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اور (ii) بینک آف انگلینڈ نے اسے 5.25 فیصد پر برقرار رکھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ رشی سنک کی قیادت میں قدامت پسندوں کی جیت کی امید مزید بڑھ گئی ہے۔
کمزور مخالفین پر آسانی سے غالب آنے والی ایک بہت اعلیٰ فوجی طاقت کو حوثیوں نے غیر جدید ہتھیاروں سے تیل کی سپلائی میں خلل ڈالا کر ناکام بنادیا ہے جس کا براہ راست اثر باقی دنیا میں مقامی افراد کی کم ہوتی آمدنی پر پڑ رہا ہے۔
پاکستان کے معاملے میں جہاں مقامی افراد کی طرف سے قرض لینے پر انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کے اثرات بلاشبہ عام لوگوں پر پڑیں گے جس کے نتیجے میں 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی کو ختم کرنے کے لیے شور مچایا جائیگا۔ ، اس طرح اس رقم پر منفی اثر پڑتا ہے جو اس مد میں اگلے مالی سال کے لیے بجٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے ( پیٹرولیم لیوی موجودہ سال کے بجٹ میں 787 ارب روپے سے زیادہ ہونے کی توقع ہے)۔
یقیناً کوئی مثالی طور پر امید کرے گا کہ اگلے سال کے بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر ریونیو بڑھانے پر انحصار کرنے کے برعکس موجودہ اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کی جائے گی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، حالانکہ پریشان کن طور پر آج تک حکومت بیان بازی میں تیز اور اقدامات کے نفاذ کیلئے سست ہے ۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،