قسمت کی دیوی ہمیشہ ن لیگ پر مہربان رہی ہے۔ دو سال کی ریکارڈ بلند اوسطاً 25 فیصد سے زیادہ افراط زر کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہورہی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ کئی مہینوں کی مہنگائی میں کمی کے باوجود افراط زر اب بھی کافی بلند ہے، ابتدائی علامات بتاتی ہیں کہ مقامی اجناس کی قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے اور رائیونڈ کا شاہی خاندان اسکا کریڈٹ لینے کے لیے تیار ہے۔
یقیناً اس سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پارٹی کا حقیقت میں قیمتوں میں کمی سے کوئی تعلق ہے یا انہوں نے کھانے پینے کی اشیا کو مہنگا ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ اپریل 2022 میں حکومت سنبھالنے کی غلطی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پارٹی قیادت کے پاس طلسماتی بال ہے جو مارکیٹ کے اتار چڑھائو کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ لیکن جہاں تک مقامی غذائی اجناس کی منڈیوں کا تعلق ہے، 2024 بھی 2013-14 میں مہنگائی میں کمی جیسا دکھائی دے رہا ہے۔
2013 میں، مسلم لیگ (ن) پنجاب اور مرکز میں اقتدار میں واپس آئی،اس وقت اوسطاً خوراک پر افراط زر 18 فیصد سالانہ تھی۔ 2024 میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے، گزشتہ پانچ سالوں میں خوراک کی افراط زر کی اوسط 21 فیصد ہے۔ 2013 کی طرح 2024 میں مسلم لیگ (ن) کی تاجپوشی عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں تباہ کن سپر سائیکل کے بعد ہوئی ہے، کرنسی اپنی قدر کا نصف کھو چکی ہے، اہم اشیاء (صرف کھانے پینے کی اشیاء نہیں) کی قیمتوں میں کم از کم دو گنا اضافہ ہوا ہے اور عام پاکستانیوں کی قوت خرید پانچ سال پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی سے کم رہ گئی ہے۔
پھر بھی اس سے پہلے کہ پارٹی اقتدار میں آکر کوئی بامعنی اصلاحات شروع کرتی، خوش قسمت خاتون ایک بار پھر شاہی خاندان کے افراد کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں، گویا محبت کرنے والوں کے درمیان جھگڑا ختم ہو رہا ہے۔ گویا عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں کمی کافی نہیں ہے –ڈبلیو بی کموڈٹی انڈیکس میں 2022 کے وسط میں انتہائی بلندی کے بعد ایک تہائی کمی ہوگئی ہے، روپے کی قدر نے بھی 12 ماہ کے انتہائی مطلوب استحکام کو مکمل کرلیا ہے۔
ماضی میں دیکھا جائے تو جناب اسحاق ڈار کو بس اتنا ہی چاہیے تھا - جس طرح انہوں نے 2018 میں اپنی پالیسیوں کی تباہی کا سارا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈال دیا تھا۔ ،اسحاق ڈار نے شاید 2023 میں جائز تنقید زیادہ تنقید برداشت کی۔ شاید یہی اس دنیا کی روایت ہے، جس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ن لیگ کے لیے دوبارہ خوشخبری ہے۔ کیونکہ اب کیو بلاک میں نیا زار زرعی بہتری کی کہانی جتنی مرضی پریس میں بیچ سکتا ہے۔ نہ ہی وہ اور نہ ہی ایس آئی ایف سی میں کوئی اور اسکو اعلیٰ زرعی پیداوار کے لیے ذمہ دار پالیسی کا نام دے سکتا ہے۔ قدرت ستمبر 2022 میں تباہ کن سیلاب دیتی ہے، اگر پیداوار کو سیلاب سے پہلے کی سطح پر بحال کرنا مضبوط ترقی کی تعریف ہے، تو خدا کرے کہ آنے والے سالوں میں اس نمو کو محفوظ رکھا جاسکے۔ ویسے، جب اجناس کی قیمتیں جلد یا بدیر گرتی ہیں تو دوسروں نقصان کا باعث بنتی ہیں، جیسے چاول کی برآمدات میں اس کا پہلا نقصان ہوگا۔
وزیر خزانہ اور ایس آئی ایف سی کے دوستوں کو جلد ہی یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ جب زرعی برآمدات میں اضافے اور مقامی قیمتوں میں استحکام کے درمیان انتخاب کرنے کی بات آتی ہے تو رائیونڈ کا شاہی خاندان ہمیشہ دوسرے کا انتخاب کرے گا۔ پنجاب میں روٹی اور نان کی قیمتیں طے کرنے کی کوششوں میں پہلے سے ہی جس کی واضح علامات نظر آ رہی ہیں۔ یعنی اب 2010 کی دہائی سے سستی روٹی کے دنوں کی بازگشت ہے اور چینی کی برآمدات کی اجازت دینے سے انکار ہے ۔ یہ سب2017 کے بحران کے باوجود ہورہا ہے،ابھی مقامی مانگ میں تیزی اور ساتھ چینی کے سرپلس کی چیخ و پکار بھی جاری ہے۔ اگر کبھی بھی کسی بھی اہم شے میں قابل فروخت سرپلس ہوتا ہے، تو پارٹی اسے گھر پر قیمتوں کو کم کرنے اور دل و دماغ جیتنے کے لیے استعمال کرے گی۔
بدقسمتی سے، یہ اصلاحات کی جماعت نہیں ہے، کیونکہ ن لیگ میں (ن) نینی ریاست کے لیے ہے۔ پارٹی معاشی اصلاحات کا ایک اور موقع کھونے کے راستے پر ہے جب کہ عوام کو قیمتوں میں استحکام کا مختصر وقت حاصل ہے۔ عوام اس کا لطف اٹھائیں جب تک یہ رہتا ہے۔
اب سوائے اس کے کہ ایران اور اسرائیل اپنی باہمی کشیدگی کو ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھا دیں۔ لیکن اگر دنیا ختم ہونے والی ہے تو شریفوں کو کون مورد الزام ٹھہرائے گا۔