وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرقیادت ایک اقتصادی ٹیم 15 سے 20 اپریل تک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن ڈی سی پہنچ گئی ہے۔
ان دونوں اداروں کی ویب سائٹس بورڈ آف گورنرز کے موسم بہار کے اجلاسوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ (بورڈ میں پاکستان کا نمائندہ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے) اجلاس میں مرکزی بینکاروں، وزرائے خزانہ اور ترقیات، اراکین پارلیمنٹ، نجی شعبے کے ایگزیکٹوز، نمائندوں کو بلایا گیا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور ماہرین تعلیم عالمی تشویش کے مسائل بشمول عالمی اقتصادی نقطہ نظر، غربت کا خاتمہ، اقتصادی ترقی اور امداد کے اثرات پر تبادلہ خیال کریںگے۔
اس حوالے سے عالمی معیشت، بین الاقوامی ترقی، اور دنیا کے مالیاتی نظام پر مرکوز سیمینارز، علاقائی بریفنگ، پریس کانفرنسز اور بہت سے دوسرے پروگرام بھی ہونگے۔
اس دورے میں ملکی مسائل کے بجائے موسم بہار کے اجلاس پر زیادہ توجہ رہے گی لیکن اگلا قرضہ پروگرام پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے ، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائرکا بڑا حصہ قرض پر مشتمل ہے اور شرح نمو 2 فیصد سے کم ہے،رواں مالی سال جولائی سے مارچ تک مہنگائی 27.06 فیصد رہی ہے اور 2019 سے دیگر ممالک کی جانب سے مالی مدد آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط رہی ہے۔ معیشت کو بہتری کی ضرورت ہے جو سخت مانیٹرنگ پر مشتمل آئی ایم ایف پروگرام میں جلد از جلد شامل ہونے پر آئیگی۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اورنگزیب دونوں کہہ چکے ہیں کہ موسم بہار کے اجلاس میں نئے بیل آؤٹ پروگرام کے خدوخال پر بات چیت کی جائے گی۔
اسٹینڈ بائی پروگرام کی آخری قسط رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے لیے زیر التواء ہے، جسے ایک رسمی کارروائی سمجھا جاتا ہے کیونکہ سٹاف لیول معاہدہ 20 مارچ کو طے پاچکا ہے۔
اس کی تائید آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے اس بیان سے ہوتی ہے جو گزشتہ جمعرات کو اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے سامنے آیا۔ انہوں نے کہا پاکستان اسٹینڈ بائی پروگرام کو کامیابی سے مکمل کررہا ہے اور زر مبادلہ ذخائر میں اضافے کے ساتھ معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور پاکستان ممکنہ طور پر فالو اپ پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کی طرف رجوع کر رہا ہے۔
تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ پاکستان کو ابھی بہت اہم مسائل کو حل کرنا ہے جس میں ٹیکس کی بنیاد بڑھانا(کیسے ملک کے امیر طبقے پر ٹیکس کو بڑھایا جائے)، سرکاری اخراجات کا جائزہ لینا اور شفاف ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔ .
نئی منتخب حکومت کی حمایت سے ایف بی آر نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ تمام دستیاب ڈیٹا بیسز کو منسلک کرنے کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جو سیاسی طور پر چیلنجنگ ہے، خاص طور پر نادرا کو ایف بی آر کے ساتھ ملکر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معاشرے کے امیر افراد معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔
تاہم، جارجیوا نے اس مسئلے کا بھی ذکر کیا کہ بجٹ میں سرکاری اخراجات کے حوالے سے کسی تبدیلی کے بہت کم ثبوت ملے ہیں۔
حکومت کو پروگرام کی شرائط کو مرحلہ وار طریقے سے نافذ کرنے کے لیے تین بڑے اقدامات کرنے چاہییں(i) ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے محصولات کی شرح میں اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے،اس سے ایندھن کے اخراجات اور غیرترقیاتی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے (ii) حکومت اور پبلک سیکٹر کے ملازمین کے لیے پنشن اصلاحات کو نافذ کرنا جیسا کے دیگر ممالک میں ملازمین کی شراکت داری کا تصورموجود ہے۔ (iii)آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی شرائط پر انتظامی اقدامات کے ساتھ ایک ایسا قانون بنایا جائے جس میں موجودہ حکومت پر اندرونی قرض لینے کی حد مقرر کرنے کے ساتھ اضافی بیرونی قرضے لینے پر پاپندی لگائی جائے، یہ قرضے ہی مہنگائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے آئی ایم ایف معاہدے کی روح پر عمل کیا ہے،جس کی تصدیق آئی ایم ایف کی سربراہ نے بھی کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ اب بھی نسبتاً غریب طبقے کو بالواسطہ ٹیکسوں کے طور پر برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جو تمام ٹیکس وصولیوں کا تقریباً 70 سے 75 فیصد حصہ بنتا ہے اور اس میں پیٹرولیم لیوی شامل نہیں ہے،پیٹرولیم لیوی کو صوبوں کی شراکت داری سے بچانے کیلئے دوسرے ٹیکسوں کی طرح سیلز ٹیکس کی مد میں رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، 18ویں آئینی ترمیم کے تحت اتفاق کئے گئے شعبوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جس سے وفاقی خزانے کو ایک کھرب روپے تک بچت ہوسکتی ہے، اس کے ساتھ صوبوں کواپنے امیر طبقے سے ٹیکس وصولی کیلئے خودمختار بنانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔اس حوالے سے امیر کسانوں اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔
یقینی طور پر بجٹ کے ڈیبٹ اور کریڈٹ پہلو کے حوالے سے اصلاحات کا پیمانہ شاندار ہے، پھر بھی اس پر عمل جاری رہنے کی ضرورت ہے تاکہ آئی ایم ایفکے ساتھ اگلے پروگرام سے پہلے آگے بڑھنے میں پاکستان کیلئے صورتحال بہتر ہوسکے اور غریبوں طبقے کو منفی اثرات سے بچایا جاسکے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،