عید کی تعطیلات کے دوران ایک گراف وائرل ہوا جس سے پتہ لگتا ہے کہ 1990 کی دہائی سے پاکستان کی معاشی ترقی بھارت کے مقابلے میں پندرہ سالہ بنیادوں پرنیچے جارہی ہے اور معاشی گراوٹ کے عرصے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ ہر دور میں اقتصادی بحالی کا دورانیہ کم کافی کم رہا ہے۔
معاشی ترقی میں کمی ایک ایسے ملک میں سب سے بڑا چیلنج ہے جہاں پر آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ آج جس طرح کے حالات ہیں اس میں غربت بڑھ رہی ہے اور متوسط طبقے پریشانی کا شکار ہے۔
یہ اس کے بالکل برعکس ہے جو پڑوسی ملک بھارت میں ہو رہا ہے۔ آئی پی ایل میچوں کے دوران اسٹیڈیم میں موجود ہندوستانی متوسط طبقے کے جوش و خروش کو دیکھا جاسکتا ہے جو پاکستان میں پی ایس ایل کے حالیہ میچوں کے دوران ہجوم کے جوش و جذبے کے بالکل برعکس ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ملک جس طویل المدتی معاشی بدحالی کا شکار ہے اب اس کا احساس ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان ووٹرز اور میڈیا کی جانب سے پائیدار بنیادوں پر معاشی بحالی کیلئے دباو بڑھ رہا ہے ۔نوجوان آبادی معاشی خوشحالی اور سلامتی کی خواہشمند ہے ۔اب پاکستان کے اسلام کے گڑھ میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
طاقتورحلقوں کے اقدامات کی وجہ سے نوجوان طبقہ امید کھورہا ہے اوران کی مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اب بھی بس کام چلائو پالیسی جاری ہے ۔سوچ یہ ہے کہ ناکام ہونے کے باوجود سخت اصلاحات سے بچتے ہوئے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی حمایت پر مبنی ماڈل سےمعیشت کو رواں دواں رکھا جائے ۔
امریکا اور سعودی عرب سے آنے والے وائبس یہ ہیں کہ وہ ملک کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے اوراگلے آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے اسے رواں رکھیں گے۔ یہ تسلی بخش خبر ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ ان لوگوں کے لیے لائف لائن فراہم کر رہا ہے جو اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ملک کو قاعدے پر مبنی معیشت اور قاعدے پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ اس وقت تو ملک میں صرف ایک ہی قاعدہ موجود ہے، یعنی طاقت ہی صحیح ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل( ایس آئی ایف سی) کی چھتری کے تحت سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے جارہی ہے تاکہ نیب اور عدالتی رکاوٹوں سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکے۔ جو لوگ ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاری کرینگے وہ بچ جائینگے جبکہ باقیوں کو تمام رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ بیوروکریسی کوئی بھی ایسا کام کرنے سے کترائے گی جو ایس آئی ایف سی کے ذریعے نہیں آتا، کیونکہ وہ نیب اورحکومت کی پسند نا پسند سے ڈرتے ہیں۔
سرمایہ کاروں کے لیےنیا اصول یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کو یقینی بنانے کے لیے ایس آئی ایف سی کا دروازہ کھٹکھٹائیں، جب کہ دوسرے لوگ سرمایہ کاری نہ کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ جو چیز غائب ہے وہ ہے قاعدہ پر مبنی معیشت، ایک ایسی معیشت جو سرمایہ کاری کو میرٹ کے بنیاد پر دیکھتی ہے۔
ملک کو نجی شعبے کی زیر قیادت سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، جو پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنےکو یقینی بنائیگا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ یہی وہ معاشی ماڈل ہے جس کی وجہ سے ہندوستان نے اقتصادی ترقی کیلئے1990 کی دہائی میں اصلاحات کو فروغ دیا اور وسیع البنیاد سرمایہ کاری کے لیے سیاسی نظام میں استحکام پیدا کیا ، سیاسی استحکام پاکستان میں بلکل غائب ہے۔
ایک بار جب لوگوں کے پاس ہنر اور تعلیم آجائے تو وہ چیزوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک بار جب نظام میں کاروباری اور پیداواری فنانسنگ کی خواہش اور گنجائش ہو جائے تو، نجی شعبہ کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز کام کر سکتا ہے۔
وقت بہت کم ہے، کیونکہ اگلے 3-5 سال معاشی ترقی کی رفتار کو تبدیل کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ معیشت بتدریج نیچے کی جانب گامزن ہے۔ اگلے چند سالوں کی پیشین گوئی سنگین ہے۔ یہ امن و امان کی خرابی اور مزید پولرائزیشن کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ ریاستی رٹ منتخب عناصر کے خلاف مرکوز ہے۔اگر چیزوں کو اصلاحی راستے پر نہ ڈالا گیا توسنگین صورتحال کا سامنا ہوگا ۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر