عالمی بینک نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مختلف وفاقی اور صوبائی ریونیو ایجنسیوں کو ایک جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) جمع کرنے والی ایجنسی میں ضم کیا جائے۔
فی الحال، خدمات پر جی ایس ٹی ایک صوبائی معاملہ ہے اور عالمی بینک کی تجویز پر عمل درآمد کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی جس کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے، جو ممکنہ طور ظاہر یا خفیہ جبر کے ساتھحاصل بھی کی جاسکتی ہے مگر اس سے نہ صرف وفاق کی اکائیوں میں عدم اطمینان پیدا ہو گا بلکہ وصولیوں میں کمی کا امکان ہے، کیونکہ اس وقت چاروں صوبائی حکومتیں ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں جو صوبوں کی اپنی وصولیوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اب صوبوں کی تمام توجہ خدمات پر ٹیکس وصولیاں بڑھانے پر مرکوز ہیں۔ .
صوبوں کے ریونیو حکام کی کارکردگی کی بنیاد پر یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ صوبوں کے لیے زمینی محصولات اور زرعی آمدنی کو بھی ان کے دائرہ کار میں منتقل کیا جائے، نہ کہ یہ پرانے انداز میں صوبائی بورڈ آف ریونیوکے پاس رہے، ان کے پاس صرف زمینی ریکارڈ رکھنے کا کام ہونا چاہیے۔
ایکسائز ڈیوٹی اور موٹر وہیکلز ٹیکس کی وصولی جو اس وقت کسی دوسرے محکمے کے ذریعے وصول کی جاتی ہے اسے بھی اس ادارے کے سپرد کیا جانا چاہیے جو خدمات پر سیلز ٹیکس وصول کر رہا ہے۔
تمام سابق وزرائے خزانہ نے2010 قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی تقسیم پر پر اتفاق کیا، یہ اتفاق رائے ابتک جاری ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ اس ایوارڈ پر نظر ثانی ہے۔ 2011-12میں قابل تقسیم آمدنی میں صوبائی حصہ کو بڑھاکر ساڑھے 57 فیصد کردیا گیا جبکہ وفاقی حکومت کے لیے ساڑھے 42 فیصد مختص کئے گیے۔
یہ بات زبان زد عام ہے کہ وفاق کے حصے میں آئی رقم قرضوں پر سود اور دفاعی اخراجات کی ادائیگی کیلئے ناکافی ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ درست ہے، لیکن پھر بھی تین مشاہدات اہم ہیں: (i) قرض لینے میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ سال جب آئی ایم ایف نے قرض کا پروگرام و معطل کر دیا تھا تو دوست ممالک کی طرف سے ملنے والی مالی مدد بھی رک گئی تھی۔ شرح سود میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف پروگرام کیلئے سخت معاشی نگرانی بھی ایک شرط ہے۔ کوئی بھی انتظامیہ اپنے اخراجات کو زیادہ کم نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے اشرافیہ کی جانب سے آمدن بڑھانے کیلئے بڑی قربانیاں دینی ہونگی۔ (اس وقت بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار جس کا اثر غریبوں پر ہے۔ امیروں سے زیادہ - کل وصولیوں کا 70 سے 80 فیصد تک ہے (ii) دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے آپریشنل اخراجات کو بجٹ سے پورا کیا جائے تاہم دیگر تمام اخراجات کو اگلے سال دو سال کے لیے کم کرنے کی ضرورت ہے، جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ہمارے لیوریج میں اضافہ ہو گا۔ (iii) 2010 کی 18ویں ترمیم میں 47 شعبوں کو صوئی معاملہ قرار دیاگیا، جن پر تقریباً نصف کھرب سے ایک کھرب روپے سالانہ اخراجات آتے ہیں، لیکن ان کو ابھی تک منتقل نہیں کیا گیا۔۔ یہ ضروری ہے کہ تعلیم اور صحت سمیت دیگر تمام معاملات کو صوبوں کے حوالے کیا جائے تاکہ وفاقی بجٹ پر دباؤ کم ہو سکے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو حالیہ برسوں میں متعدد وزرائے خزانہ کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے ،جس میں سے ایک معاملہ سالانہ 500 ارب روپے کا نقصان کا بھی ہے۔
ریونیو بڑھانے کی تجاویز روایتی طور پر ایف بی آر کا ڈومین رہی ہیں حالانکہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔جس کی کابینہ سے منظوری بھی لینی پڑتی ہے ،در حقیقت ایف بی آر کے تجاویز ٹیکسوں میں اضافے کی طرف مائل ہیں۔اس لیے اصلاحات کا مقصد ٹیکس کا ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دینے پر ہونا چاہیے جو کہ منصفانہ اور مساوی ہو، بجائے اس کے کہ بورڈ کے دائرہ کار میں توسیع کی جائے تاکہ صوبائی ٹیکسوں کو بھی شامل کیا جا سکے۔
فی الحال، بورڈ نے اپنے عہدیداروں کے لیے میڈیا سے بات نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے تاکہ بجٹ سے قبل کسی ایک فریق کو لیوی یا اس کی واپسی کی پیشگی معلومات سے غیر منصفانہ طور پر فائدہ اٹھانے سے روکا جاسکے۔ امید ہے یہ پاپندی عارضی ہوگی کیونکہ ٹیکس کے ڈھانچے میں بہتری کیلئے وسیع عوامی بحث کی ضرورت ہے تاکہ اصلاحات کو عوامی حمایت حاصل ہو اور اس حوالے سے مخالفت کو کم کیا جاسکے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف ورلڈ بینک کی تجاویز ہمارے آئین کیخلاف ہے بلکہ سنگل ٹیکس اتھارٹی ہونے کے حوالے سے ایف بی آر کی صلاحیت بھی سوالیہ نشان ہے ۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر