اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 3 اپریل کو چھ ماہ کے ٹریژری بلز کے لیے شرح سود میں توقع سے زیادہ 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کردیا۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اس دعوے کی وضاحت کی ضرورت ہے کہ افراط زر کی شرح کم ہورہی ہے۔
پی بی ایس نے کنزیومر پرائس انڈیکس کا حساب لگایا تھا، جو مارچ 2024 کے لیے 20.7 فیصد رہا ہے - جو فروری کے مہینے 23.1 فیصد تھا اور جون 2023 میں 29.4 فیصد سے تھا - جبکہ بنیادی افراط زر مارچ 2024 میں کم ہو کر 12.8 فیصد رہ گیا ہے جو فروری میں 15.15 فیصد تھا۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ 26 جون 2023 کے مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ کے مطابق 22 فیصد کا پالیسی ریٹ 27 جون 2023 سے موثر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پالیسی کی شرح کو 100 بی پی ایس بڑھا کر 22 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیوں کہ یہ اقدام حقیقی شرح سود مثبت رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
اس سے افراط زر کو مزید کم کرنے میں مدد ملے گی۔ جو پچھلے چند مہینوں میں پہلے ہی کم ہو رہا ہے، اور مالی سال 25 کے آخر تک 5-7 فیصد کے درمیان ہونے کی توقع ہے۔
ٹریژری بلزپاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے بعد مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہیں، یہ بلز مارچ 2023 کے آخر تک کل مقامی قرضوں کے پورٹ فولیو کا 18 فیصد تھا -ان پر شرح سود میں اضافہ حیران کن تھا کیونکہ ماہرین اس میں کمی کی امید کر رہے تھے۔ جو تین اور 12 ماہ کے حساب میں بالترتیب 21.66 فیصد اور 20.89 فیصد رکھا گیا، چھ ماہ کے منافع کو بڑھا کر 21.39 فیصد کر دیا گیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیٹ بینک 29 اپریل 2024 کو طے شدہ شرح سود میں کمی کرے گا تاکہ مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں کی عکاسی ہو سکے یا پھر ماہرین اقتصادیات کی یہ رائے درست ہے کہ مہنگائی کو جان بوجھ کر کم دکھایا جا رہا ہے، جس کی عکاسی بجلی اور گیس پر سبسڈی میں کمی سے ہوتی ہے۔ گیس کے نرخوں میں ایک ماہ میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔
اگر اس بات کا مقصد عام صارفین کے مفاد کے پیش نظر کیا گیا ہے تو افسوس کی بات یہ ہے کہ دو وجوہات کی بناء پر ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے (i) مارچ میں 20.7 فیصد کی افراط زر فروری سے قیمتوں میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے اور (ii) پیٹرول اور یوٹیلیٹی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر روپے کی قدر پر پڑتا ہے جو براہ راست عوامی عدم اطمینان کا باعث ہے۔
اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق حقیقی موثر شرح مبادلہ کو آخری بار دسمبر 2023 کے لیے 98.8 پر جبکہ جون 2023 کے 87.7 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس اصرار پر مجبور ہوا کہ روپے کی قدر زیادہ ہے، اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق نے یہ کیا بھی تھا۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ جب تک روپے اور ڈالر کی قدر مارکیٹ میں طے نہیں ہوتی، مجوزہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر اسٹاف لیول کا معاہدہ ممکن نہیں ہوگا - جس کے بعد شرح سود میں اضافہ کردیا گیا۔
سیاسی وجوہات کی بناء پر حکومت کی جانب سے حد سے زیادہ پر امید تخمینوں اور عطیہ دہندگان کے درمیان کوئی مطابقت نہیں ہوتی ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف جس کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ملک ایک اورقرض پروگرام کا قرض حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ملک کیلئے آئی ایم ایف کے 23 پروگراموں کے ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے حکومت کے برعکس زیادہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا ہے۔ حالانکہ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے اس سے ہٹ کا اقدامات بھی کئےجس کی وجہ سے ملک کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ .
ایم پی سی کی اگلی میٹنگ میں شرح سود میں اضافے اعلان ممکن ہے۔ تاہم امید کی جارہی ہے کہ اسٹیٹ بینک پر پالیسی ریٹ کو بلند رکھنے کے لیے دباؤ میں کمی آئے گی جس سے مقامی قرضوں پر بجٹ میں حکومتی سود پر بھی اثر پڑے گا جس کے نتیجے میں، نجی شعبے کے قرضے اور شرح ترقی میں اضافہ ہوگا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر