طویل عرصے سے جاری پنشن اصلاحات کے مسئلے نے حالیہ دنوں میں بھرپور توجہ حاصل کرلی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر کھربوں روپے پنشن کی مد میں ادا کئے جارہے ہیں جس نے ہمارے قرضوں اورمالی ذخائر پر غیر ضروری دباو ڈال دیا ہے ،اس کے ساتھ یہ اہم وسائل کو بھی کھارہی ہے جو دوسری صورت میں سماجی شعبوں پر خرچ کئے جاسکتے ہین ۔
دوسری جانب پاکستان کو آئی ایم ایف کے دباو کا بھی سامنا ہے ۔رواں سال وفاقی اور صوبائی پنشن کے اخراجات20 فیصد نمایاں اضافہ سے 1.5 ٹریلین روپے سے تجاوز کرگئے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس اب تجویز کر رہی ہیں کہ وزارت خزانہ نے پنشن اصلاحات کے پروگرام سے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ پروگرام انہی خطوط پر ہے جیسا کہ سابقہ پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) حکومت نے اپنے مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں متعارف کرایا تھا، لیکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سخت مزاحمت کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ اشتراک کردہ اصلاحاتی منصوبے کا ایک سرسری جائزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کمیوٹیشن ریٹ میں کمی اور پنشن کی سالانہ شرح نمو کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں پنشن کا حساب لگانے کا فارمولا تبدیل کر دیا گیا ہے۔پنشن میں سالانہ اضافہ جس کا حساب فی الحال آخری دی گئی پنشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اب اسے کنزیومر پرائس انڈیکس میں شامل کیا جائے گا جس میں ہر سال زیادہ سے زیادہ 10 فیصد اضافہ کی اجازت ہے۔اس کے علاوہ، منصوبے میں فوت شدہ ملازمین کے مستفید ہونے والوں کی تعداد کو کم کرنے کے ساتھ متعدد پنشن کو آگے بڑھانے کے عمل کو روکنے کی تجویز ہے۔
یہ واضح ہے کہ ہمارے سالانہ پنشن بل کی موجودہ رفتار غیر پائیدار ہے، ہمارے مالی ذخائر پر اس بڑے بوجھ کے ساتھ صحت اور تعلیم سمیت دیگر اہم شعبوں پر اخراجات باقاعدگی سے بڑھ رہے ہیں۔ درحقیقت، جیسا کہ معروف ترقیاتی ماہرین کے حوالے سے میڈیا رپورٹس نے نشاندہی کی ہے، پاکستان کی پنشن کی تقسیم اگلے 35 سالوں تک 25 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھنے والی ہے، اور ہمارے پنشن پروگرام میں دور رس تبدیلی کے بغیر، ہم ایسے مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں جہاں دس سال بعد حکومت کے پاس پنشن دینے کے لیے فنڈز نہیں ہوں گے۔
اس خطرناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے، جبکہ وزارت خزانہ کی طرف سے تجویز کردہ منصوبہ خوش آئند اور ضروری ہے، لیکن یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہمارے مستقبل کے پنشن بلوں کو پائیدار سطح پر لایا جائے۔ جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک فنڈڈ، کنٹریبیوٹری پنشن ماڈل کی طرف جانے کی ضرورت ہے، جو کہ ہمسایہ ملک بھارت نے 2004 میں ورلڈ بینک کے ایک پروجیکٹ کے تحت لاگو کیا تھا، جبکہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں پنشن کی مد میں کھربوں روپے خزانے سے نکل جاتے ہیں۔ہمیں اپنی سرحدوں سے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومتوں کی جانب سے کنٹریبیوٹری پنشن ماڈل کی طرف رجوع کیا جائے، یہ بتاتے ہوئے کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی آخری حکومت نے 2022 میں ایسی ہی ایک سکیم متعارف کرائی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس پنشن پالیسی کی اصلاحات کو لاگو کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔اس سے مستقبل میں ریٹائرمنٹ کے فوائد کے لیے ایک پائیدار فریم ورک قائم کرنے میں مدد ملے گی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ طویل مدت میں عوامی مالیات پر دباؤ کم ہو جائے گا۔حکومت کو بیوروکریسی اور دیگر ذاتی مفادات کے تمام دباؤ کا مقابلہ کرنا چاہیے، اور سول سروس کے اندر سے پنشن اصلاحات کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی کوشش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔