اسرائیل کے بڑے اور تباہ کن حملوں کے جواب میں ایران نے بھی جوابی کارروائی شروع کردی۔

ایران نے جمعہ کی شب اسرائیل پر میزائل داغے گئے، جس کے بعد یروشلم اور تل ابیب — جو کہ اسرائیل کے دو بڑے شہر ہیں — میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق، ایران نے اسرائیل کے تاریخ کے سب سے بڑے حملوں کے جواب میں سیکڑوں بیلسٹک میزائل داغ دیے ہیں۔

اسرائیل بھر میں میزائل حملے کے سائرن بجائے گئے جبکہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی۔ تل ابیب کے آسمان پر میزائلوں کو پرواز کرتے دیکھا گیا اور فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے دو مرحلوں میں میزائل داغے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے 100 سے کم میزائل فائر کیے، جن میں سے زیادہ تر کو راستے میں ہی تباہ کردیا گیا یا وہ اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے گر گئے۔ دو امریکی حکام کے مطابق، امریکی فوج نے بھی اسرائیل کی جانب آنے والے ایرانی میزائلوں کو مار گرانے میں مدد فراہم کی۔

اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق، شیلنگ کے نتیجے میں دو افراد شدید زخمی ہوئے، آٹھ کو درمیانے درجے کی چوٹیں آئیں جبکہ 34 افراد معمولی زخمی ہوئے۔

حملے میں کئی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں تل ابیب کے قریب رہائشی علاقے رامت گان میں واقع ایک اپارٹمنٹ بلاک بھی شامل ہے۔ مرکزی تل ابیب میں ایک اور عمارت پر بھی حملہ ہوا، جس سے متعدد منزلوں کو شدید نقصان پہنچا۔

دن بھر ایران پر اسرائیلی حملوں اور اس کے جواب میں ایرانی کارروائی نے خطے میں ایک وسیع تر جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے، حالانکہ ایران کے اتحادی — غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ — اسرائیل کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھا چکے ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق تہران نے اسرائیل کے خلاف سیکڑوں بیلسٹک میزائل داغے جو کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی بڑی جوہری تنصیب پر حملے اور اس کے اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو شہید کرنے کے بعد کیے گئے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نطنز میں ہونے والے نقصان کی مکمل تفصیلات سامنے آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ نطنز میں یورینیم کو ایسے درجے تک افزودہ کر رہا ہے جو ایٹم بم کی تیاری کے لیے موزوں ہے، نہ کہ شہری مقاصد کے لیے۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے جمعہ کو سلامتی کونسل کو بتایا کہ نطنز میں واقع سطح زمین پر موجود پائلٹ افزودگی پلانٹ تباہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ابھی تک اسرائیلی حملوں سے متاثرہ دو دیگر تنصیبات — فردو فیول افزودگی پلانٹ اور اصفہان — سے متعلق معلومات جمع کررہی ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل پر جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ایک اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے کہا کہ اسرائیل میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہے گی۔

اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے امیر سعید ایراوانی نے کہا کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں میں 78 افراد شہید ہوئے، جن میں اعلیٰ فوجی حکام بھی شامل ہیں، جبکہ 320 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

انہوں نے ان حملوں میں امریکہ کو شریکِ جرم قرار دیا اور کہا کہ اس کے نتائج کی مکمل ذمہ داری بھی امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔

جتنے دن بھی لگیں

اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ اسرائیل کا آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا۔“

“آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ ہمارے دور نے ثابت قدمی دکھائی، بروقت اقدام کیا اور ہمارے مشترکہ مستقبل کو محفوظ بنایا۔

نیتن یاہو، جو دہائیوں سے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خبردار کرتے آئے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے یہ حملہ کرنے کی اجازت دی۔ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ تہران کا مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہے، تاہم ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے نمائندے ڈینی ڈینن نے کہا ہے کہ انٹیلیجنس اطلاعات سے تصدیق ہوئی ہے کہ ایران چند دنوں میں اتنی تابکار مواد تیار کر لیتا جو کئی جوہری بموں کے لیے کافی ہوتا۔

ایران طویل عرصے سے اصرار کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے اس ہفتے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران عالمی عدم پھیلاؤ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ تہران کے لیے اب بھی دیر نہیں ہوئی، وہ اپنے جوہری پروگرام پر معاہدہ کر کے اسرائیلی بمباری مہم کو روک سکتا ہے۔

تہران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک نئے معاہدے پر مذاکرات جاری تھے تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا جا سکے، یہ معاہدہ اُس معاہدے کی جگہ لینا تھا جسے ٹرمپ نے 2018 میں ختم کر دیا تھا۔ تاہم ایران نے امریکا کی آخری پیشکش کو مسترد کر دیا۔

جوابی حملوں کے خدشات کے باعث تیل پیدا کرنے والے خطے میں کشیدگی بڑھنے سے خام تیل کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا، حالانکہ ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ تیل کی پیداوار یا ذخیرے کو نقصان پہنچا ہو۔ اوپیک کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے باوجود تیل کی سپلائی میں فوری طور پر کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

Comments

200 حروف