پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس: کم از کم اجرت برقرار، وزیر خزانہ کی اہم معاملات پر گفتگو

  • منگل کو محمد اورنگزیب نے پارلیمنٹ میں وفاقی بجٹ 26-2025 پیش کیا تھا
شائع June 11, 2025

وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو محمد اورنگزیب نے بدھ کے روز مالی سال 26-2025 کے بجٹ پر اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کا جواب دیا، جو ایک روز قبل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔

میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وضاحت کی کہ سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کمانے والے تنخواہ دار افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد مقرر کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیونکہ ہر فگر پہلے سے طے شدہ ہے، اس لیے اگر ہمیں کہیں ریلیف دینا ہے تو اس کے لیے وسائل بھی کہیں اور سے حاصل کرنا ہوں گے۔ یہ ایک جاری عمل ہے۔

بجٹ تقریر کے دوران اورنگزیب نے تجویز دی تھی کہ اس آمدنی کیٹگری کے لیے انکم ٹیکس کی شرح آدھی کر کے 2.5 فیصد کی جائے گی۔

تاہم یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تقریر میں بیان کی گئی شرح اور فنانس بل میں درج شرح میں تضاد ہے — فنانس بل میں اس آمدنی زمرے کے لیے ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد مقرر کی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت رواں کیلنڈر سال کے دوران پہلا پانڈا بانڈ جاری کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یورو اور امریکی ڈالر مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم 2026 سے پہلے ان مارکیٹس میں داخل ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کیونکہ ہمیں پہلے مخصوص کریڈٹ ریٹنگ حاصل کرنی ہوگی۔

اورنگزیب نے کہا کہ بجٹ تقریر میں جس ٹیرف اصلاحات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ملک کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں اور اس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 7,000 ٹیرف لائنز میں سے حکومت نے 4,000 پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مالی گنجائش محدود ہے

محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اتنا ہی ریلیف دے سکتے ہیں جتنا ہماری مالی گنجائش اجازت دیتی ہے۔*

انہوں نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں ملک کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ مالی سال 2026 میں ہم اس تناسب کو 10.9 فیصد تک بڑھانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں نظام میں موجود لیکیجز (چور راستوں) کو بند کرنے کے لیے مناسب ترامیم اور قانون سازی کی ضرورت ہے، تاکہ حکومت کو اضافی اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے۔

وزیر خزانہ نے نشاندہی کی کہ موجودہ مالی سال میں حکومت کے اخراجات میں 1.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ زرعی شعبے پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اور حکومت چھوٹے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے گی۔

اسی دوران سیکریٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے وضاحت کی کہ اخراجات میں یہ اضافہ صرف انتہائی ضروری ضروریات تک محدود ہے۔

بجلی کے بلوں پر سرچارج سے متعلق وضاحت

بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سرچارج عائد کیے جانے سے متعلق خبروں پرچیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے وضاحت کی کہ کسی قسم کا اضافی سرچارج عائد نہیں کیا گیا۔

آبادی کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ سے الگ کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہر فیصلہ صوبوں سے مشاورت کے ساتھ کیا جائے گا۔

کم از کم اُجرت 37,000 روپے برقرار رکھنے کے فیصلے سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ فیصلہ صنعتی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس عائد کیے جانے کے سوال پر چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لانگریال نے وضاحت کی کہ 16 سے 18 فیصد جی ایس ٹی صرف کم حد تک اسمبل شدہ سولر پینلز پر لگایا گیا ہے، جبکہ مکمل طور پر اسمبل شدہ درآمدی سولر پینلز پر کوئی جی ایس ٹی نہیں ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اصل میں مقامی مینوفیکچرنگ نقصان میں تھی۔

ایک سوال کے جواب میں امداداللہ بوسال نے بتایا کہ بجٹ کے اعداد و شمار ”انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ“ ہیں۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے امداداللہ بوسال نے بتایا کہ 6 سے 10 فیصد تک مجوزہ اضافہ سرکاری خزانے پر تقریباً 28 سے 30 ارب روپے کا بوجھ ڈالے گا۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ پنشن کے لیے کنٹریبیوٹری اسکیم متعارف کروانے کے سلسلے میں وزارت خزانہ، وزارت دفاع سے مشاورت کرے گی۔

قبل ازیں، حکومت کی جانب سے فنانس بل پر طے شدہ تکنیکی بریفنگ منعقد نہ کرنے پر صحافیوں نے پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔

۔

منگل کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پارلیمنٹ میں مالی سال 26-2025 کا وفاقی بجٹ پیش کیا، جس کا مجموعی حجم 17.573 کھرب روپے ہے۔

اس بجٹ میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد رکھا گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال کے 2.7 فیصد کے مقابلے میں نمایاں زیادہ ہے۔

محمد اورنگزیب نے اس بجٹ کو ملکی معیشت کے لیے ایک مسابقتی ماحول، برآمدات میں اضافہ، اور معیشت کے ”ڈی این اے“ میں بنیادی تبدیلی لانے کی حکمت عملی کی شروعات قرار دیا۔

حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا ہدف 7.5 فیصد مقرر کیا ہے۔

مالی خسارے کے حوالے سے حکومت نے جی ڈی پی کے 3.9 فیصد — یا 5,037 ارب روپے — کا ہدف رکھا ہے، جو گزشتہ سال کے بجٹ شدہ ہدف 5.9 فیصد سے کم ہے۔

اسی طرح، پرائمری سرپلس کا ہدف 2.4 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جو موجودہ مالی سال کے بجٹ میں 2 فیصد رکھا گیا تھا اور اب نظرثانی کے بعد 2.2 فیصد ہو چکا ہے۔

Comments

200 حروف